۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

امیر الاولیاء حضرت مولانا سید شاہ علی امیر الحق عمادی رحمۃ اللہ علیہ

آپ کا نام علی، لقب امیر الحق، کنیت ابوالحفص اور تاریخی نام جس کو آپ کے والد ماجد نے ایک نظم میں قطعہ بند کیا "گہر بخت" ہے۔ آپ کی ولادت ۶؍ ذی قعدہ بروز چہار شنبہ وقت دو گھڑی دن باقی رہے ۱۲۲۷ھ میں ہوئی۔ اوائل میں الف، با ، کریما تک اپنے دادا سے پڑھی بعدازاں اپنے دالد سے پڑھنا شروع کیا ۔ جب سن شریف آٹھ برس کا ہوا تو آپ کے والد نے قضا کیا اور اپنے برادر بزرگ منہاج السالکین یعنی مولانا نصیر الحق قدس سرہٗ کے ضل حمایت میں جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے پرورش پائی۔ کتب درسی از میزان الصرف تا بیضادی مع احادیث جو کچھ پڑھا حرفاً حرفاً اپنے برادر بزرگ سے پڑھا اور بائیس برس کی عمر میں فاتحہ فراغت حاصل کیا۔ حدیث کی سند لکھنو تشریف لے جا کر حضرت مرزا حسن علیؒ سے حاصل کی۔ بعد فراغت تحصیل علم ظاہری بیعت طریقت و خلافت و اجازت کل طریقہ عمادیہ، وارثیہ و معزیہ و عتیقیہ و قاسمیہ و زاہدیہ وغیرہ کی برادر بزرگ حضرت منہاج السالکین سے حاصل کی۔ چندے ابتدائے جوانی میں عہدہ ہائے سرکار پچھّم کے ملک میں بطور تفریح انجام دیا۔ جب آپ کے پیر و مرشد کے وصال کو تین برس باقی رہ گئے تو فرمایا کہ دنیا میں رہنے کا ہمارا زمانہ کم ہے تم سب بھائی ہم سے دور رہے ہو اور کوئی ذکور بھی مجھ کو نہیں ہے کیا خاندانی دولت ہمارے ساتھ جائے گی۔ بس اب ہمارے پاس رہ کر بزرگوں کی امانت کے باربردار ہو جائیے اور نوکری سے مستعفی ہوجایے۔ لہٰذا اس تاریخ سے آپ خانقاہ داری میں مصروف رہے۔ ہر چند کہ ذکر و اشغال کی عادت آپ کو ہمیشہ تھی مگر تین برس میں آخری صحبت حضرت پیر و مرشدقدس سرہٗ العزیز کی حاصل ہوئی اس میں شب و روز مجاہدات و ریاضت و مشاقی اشغال و اذکار کرتے رہے۔ جب بتاریخ ۲۸ ماہ شوال ۱۲۶۰ھ حضرت پیر و مرشد موصل بخدا ہوئے تو چونکہ نظر اقدس برادر بزرگ پیر و مرشد قدس سرہ العزیز کی آپ پر پڑ چکی تھی لہٰذا کل اخوان دینی و برادران حقیقی آپ کی سجادگی پر متفق ہوئے۔ ہر چند کہ آپ انکار کرتے رہے مگر آپ کا انکار کسی نے نہ مانا۔ چونکہ آپ کے کل برادران نوکری پر تھے۔ کل بھائیوں کے آنے کے بعد وفات کے چھ مہینے کے بعد بتاریخ ۲۰؍جمادی الاول ۱۲۶۱ھ بروز عرس حضرت محبوب رب العالمین شاہ عماد الدین قلندر قدس سرہ العزیز بحضور جمیع رؤساو مشائخ شہر عظیم آباد و قصبہ پھلواری بہ اہتمام برادر دوئم مولانا احمد ظہیرالحق قدس سرہ العزیز جو آپ سے تین برس بڑے تھے وستار بندی اور خرقہ پوشی و جلوہ سجادگی کا ہوا۔ جوانی میں آپ بہت خوش رواوروضعداد تھے اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ آپ سے بار فقر اور سجادگی نہ اٹھ سکے گا مگر آپ نے کل کاموں کو ایسا انجام دیا کہ جس کو تمام ہم عصر تحسین و آفریں سے ذکر کرتے تھے۔ بعد سجادگی ایسی قلب ماہیت ہوئی کہ حضرت پیر و مرشد اور آپ سے کوئی شخص صورتایاً سیرتاً امتیاز نہیں کر تا تھا۔ چناچہ مولوی جنت حسین صاحب فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ باشندہ دہلی مریدوں میں سے حضرت شاہ نصیر الحق قدس سرہٗ کے بعد وفات آپ کے یہاں آئے اور حضرت اس وقت خانقاہ میں تشریف رکھتے تھے۔ کہ کئی مرتبہ انہوں نے جھانک کر آپ کی طرف دیکھا اور اس کے بعد خانقاہ میں آکر حضرت سے ملے اور نہایت متحیر بیٹھے رہے۔ تب حضرت نے خیریت پوچھنے کہ بعد وجہ تحیر دریافت کیا۔ انہوں نے بیان کیا مجھ کو معلوم ہوا تھا کہ ہمارے پیر و مرشد نے انتقال کیالیکن یہاں آکر دیکھتا ہوں کہ بفضلہ تعالیٰ حضور تندرست اور توانا ہیں دشمنوں نے جھوٹ مشہور کر دیا ہے۔ اس وقت حضرت نے فرمایا کہ نہیں تم نے جو بیان سنا ہے وہ سچ ہے تمہارے پیر و مرشد نے انتقال فرمایا اور میں ان کا بھائی ہوں۔ آپ کی سجادہ نشینی کے بارے میں ایک خواب مولوی ابوالبرکات صاحب بہاری نے دیکھا تھا جس کو بذریعہ خط لکھ کر مولوی صاحب مرحوم نے بحضور امیر الاولیاء قدس سرہٗ بھیج دیا۔

درس و تدریس کا آپ کو بہت شوق تھا چناچہ اکثر لوگ آپ کے شاگردوں میں علماء ہوئے اور متوسطین کا تو عدد شمار نہیں کر سکتے۔ بعد سجادہ نشینی بہت دنوں تک آپ نے ہی وعظ کا شغل جاری رکھا۔ سامعین وعظ کا مجمع اس قدر ہوتا تھا کہ سابقہ مسجد کے چھوٹی ہونے کی وجہ سے لوگ مسجد سے باہر کھڑے رہتے تھے۔ لہٰذا اس رعایت پر آپ نے اس مسجد کو پختہ اور وسیع تیار کرایا کہ اب وہ آپ کی خانقاہ شریف کے صحن میں واقع ہے۔

جب آپ کی آنکھوں میں حرج پیدا ہوا اوربرابر بیمار رہنے لگے تو وعظ کا شغل بالکل جاتا رہا۔ ۱۲۸۹ھ میں آپ بیت اللہ تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ بہت بڑا قافلہ تھا کل عزیزان آپ کے ساتھ تھے بلکہ علاوہ عزیزوں کے اکثر مریدان و رؤسا شہر تھے۔ اتنا بڑا قافلہ ہماری یاد میں اس شہر سے حج کو نہیں گیا۔ اور کل آدمیوں کا حساب کتاب روپیہ پیسہ ہمارے پیر و مرشد مد ظلہ العالی کے ہاتھ میں تھا اور وہاں کے لوگ آپ کو ہندستان کا نواب تصور کرتے تھے۔ مولانا ممدوح قدس سرہ العزیز کو مکہ معظمہ و مدینہ منورہ کے لوگ بھی نہایت ہی وقعت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور صاحب کمال جانتے تھے۔ چناچہ نقل ہے کہ ایک روز آپ مدینہ منورہ میں شیخ الدلائل کی صحبت میں جاکر جہاں پر لوگ جوتا اتار تے تھے بیٹھے۔ شیخ الدلائل درس دے رہے تھے کہ فوراً انہوں نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا ۔ جس طرح کوئی کسی کو تلاش کرتا ہے۔ بعد ازاں آپ کی طرف دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کو اپنے بغل میں بلایا آپ نے انکار کیا کہ اس جگہ بیٹھنے کی میری مجال نہیں ہے اس پر انہوں نے فرمایا کہ آپ اپنے کو نہیں پہچانتے ہیں یعنی روضہ اقدس کی طرف اشارہ کیا یہ کہہ کر زبر دستی اپنے بغل میں لے جاکر بٹھایا اور بہت تعظیم و تکریم سے پیش آئے۔

نقل ہے کہ ایک روز وطن مراجعت سے پیشتر اور بعد نماز عشاء رسول اللہ ﷺ کے روضہ اقدس پر پہنچے تو آپ پر کیفیت طاری ہوئی اور وجد و شورش میں ایک گھنٹہ تک ٹہلتے رہے اور تمام علماء و فضلادست بستہ کھڑے رہے جب کیفیت فرد ہوئی تو اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے۔ سفر حج سے واپس آنے کے بعد ۱۲۹۱ھ میں خانقاہ کی بنیاد بطرز پختہ دی گئی اور آپ کی وفات کے بعد ۱۳۰۲ھ میں بہ اہتمام مرشدی مد ظلہ العالی دام فیوضہ بہ ہمہ وجود تیار ہوئی۔

نقل ہے کہ ایک بزرگ شاہ خدا بخش قدس سرہ ٗکے مریدوں میں سے یہاں تشریف لائے اور حضرت کی صحبت میں بیٹھے۔ تھوڑی دیر کے بعد نعرہ مارا اور فرمایا کہ لوگ بالکل اندھے ہیں جو آپ کی قدر نہیں کرتے ہیں یہاں صاف طور سے حضرت میاں صاحب کی نسبت ظاہر ہوتی ہے۔

شیخ محمد صاحب ساکن کمہرار نے دونقلیں مجھ سے بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ میں ایک روز جناب مولانا قدس سرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا میاں محمد علی تھوڑا سا دھنیا مجھ کو دے سکتے ہو میں نے پوچھاکہ کس قدر چاہئے آپ نے فرمایا کہ چھ من۔ میں نے کہہ دیا کہ بہت خوب۔ بعد میں جب میں نے دھنیا جمع کر لیا تو جاکر عرض کی کہ جس روز حکم ہو بھیج دوں۔ تو حکم ہوا کہ اپنے یہاں رہنے دو۔ جب ہم کو ضرورت ہوگی منگوالیں گے۔ چنددنوں کے بعد دھنیا بہت گراں ہو گئی تو مجھ کو فرمایا کہ اب مجھ کو دھنیے کی حاجت نہیں ہے تم بیچ ڈالو، وہ کہتے ہیں کہ اس سال مجھ کو اس قدر نفع ہوا کہ کسی سال ایسا نفع نہ ہوا تھااور مجھ کو یہ بات معلوم ہوئی کہ دھنیے کی حاجت نہ تھی بلکہ ہمارے ہی فائدے کے واسطے یہ بندوبست کیا گیا تھا اور دوسری نقل یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز ڈاکٹر قاسم علی کے یہاں موجود تھا کہ دوچپراسی داناپور کچہری سے پروانہ گرفتاری بنام ڈاکٹر موصوف بہ علت باقی مبلغ بیس روپیہ قیمت دواکی لے کر پہنچے اور فوراً ہی مولانا امیر الحق قدس سرہ العزیز کے ایک خادم نے ڈاکٹر صاحب ممدوح کو لاکردئے۔ اس خادم نے بیان کیا کہ تین رات سے مجھ کو حکم ہو رہا تھا کہ روپیہ جا کر دے آؤمگر بوجہ شب کے نہ آیا تو حضرت بہت خفاہوئے کہ جب کسی کی عزت چلی جائے گی تب جاؤگے۔لہٰذا میں فوراً دوڑاہوا آیا ڈاکٹر صاحب سے معلوم ہوا کہ جس دواکے بقابہ کی نسبت وارنٹ تھا وہ مولانا ہی کے واسطے ڈاکٹر صاحب کے معرفت آیا کرتی تھی۔ غرض کہ ڈاکٹر صاحب نے بائیس روپے مع خرچہ ان چپراسیوں کو دے کر رخصت کیا۔

منشی شیوپر شاد لعل صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں ہمیشہ آپ کے حضور میں حاضر ہوا کر تا تھا اور دیوان محلہ سے خانقاہ تک گلی کی راہ سے آمد و رفت تھی۔ ایک روز ایک عورت کو اس گلی میں دیکھا تو اس کی صورت مجھ کو پسندآئی پھر تو ہر روز اس کے اشتیاق میں اسی راہ سے آنے لگا اور یہاں روزانہ حضرت نے مجھ سے استفسار کرنا شروع کیا کہ آج تم کس طرف سے آئے ہو میں عرض کرتا کہ گلی کی طرف سے حاضر ہواہوں۔ آپ فرمایا کرتے کہ سڑک کی طرف سے نہیں آتے جاتے ہو۔ سڑک کی جانب تو ہر طرح کا تماشہ دکھائی دیتا ہے غرض کہ دو تین روز اسی طرح سے فرمایا۔ مگر میں نے آپ کے اس فرمانے کی طرف کچھ خیال نہ کیا اور پھر اسی طرف سے آمد و رفت جاری رکھی۔ ایک روز آپ نے فرمایا کہ منشی جی غیر عورت کو نگاہ بد سے دیکھنا بھی زنا میں داخل ہے۔ اس روز میں سمجھا کہ یہ سب کہنا ہماری ہی طرف ہے۔ اس تاریخ سے میں سڑک کی طرف سے آنے لگا۔ اس گلی میں پھر نہ گیا اور حضرت نے پوچھنا چھوڑ دیا۔

ان نقلوں سے آپ کے کشف و کرامات ظاہر ہوتے ہیں مگر بوجہ طول کے میں نے نہیں لکھا اور کیوں کر نہ ہو جو شخص چالیس برسوں تک یاد الہٰی میں اوقات صرف کرے گا اس سے جو کچھ کراماتیں ظاہر ہوں تھوڑی ہیں۔ وجاہت ظاہری میں بھی بے نظیر تھے جس وقت مجلس میں بیٹھتے تھے تو مانند شیر غزان کے نظروں میں معلوم ہوتے تھے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ آپ کے سامنے بہ آواز بلند باتیں کرے۔ آپ کی دونوں آنکھوں کی روشنی جاتی رہی تھی مگر آپ کے روبروجاتے ہوئے دہشت معلوم ہوتی تھی۔ چہرہ ا نور نہایت تاباں تھا۔ رنگت گلاب کے پتوں کی سی تھی۔ آپ نے ابتدائی حال میں ذکر قلندر یہ کی بڑی مہارت پیدا کی تھی۔ اتفاقاً ایک روز اثنا ئے ذکر میں دفعتاً قلب اکھڑ گیا اور دل پر صدمہ پہنچا اس وقت سے تپاک کا عارضہ پیدا ہوا۔ اور اکثربدمزہ رہنے لگے۔معدہ کا ہرج بھی ہمیشہ رہا کرتاتھا۔ آخر عمر میں بصارت کئی برسوں سے جاتی رہی تھی۔ آپ کی وفات بتاریخ ۱۴؍محرم الحرام و بہ اختلاف رویت  ۱۵؍ محرم الحرام بروز سہ شنبہ وقت چاشت ۱۳۰۲ھ کو ہوئی۔ سن شریف آپ کا چوہتر برس دو مہینے دس روز کا ہوا جس میں چونتیس برس چھ مہینے پندرہ روز اوائل عمر کا آغوش مادر میں پڑھنے لکھنے اور نوکری میں صرف ہوا۔ بقیہ چالیس برس سات مہینے پچیس روز خلوت نشیں رہ کر یاد الہٰی و ہدایت خلق اللہ میں صرف کیا۔ غرض کہ بہت بڑاحصہ آپ کی عمر کا ریاضیات و مجاہدات میں گزرا ۔

اولاد میں سے آپ نے ایک صاحبزادی زوجہ مولوی ظہور الحق صاحب ولد مولوی سید شیر علی مرحوم و دیگر صاحبزادہ جناب سراپا کرامت، زیب خرقہ معرفت، زینت دلق طریقت برگزیدہ بارگاہ ذات مطلق مولانا و مرشد نا مقتدانا حضرت حاجی سید شاہ محمد رشید الحق جو پیر و مرشد حقیر کے ہیں چھوڑا۔ آپ کے خلفاء و شاگردان اگر چہ زیادہ ہیں مگر چند اشخاص کانام مجھ کو یاد آیا قلم بند کر دیا جاتا ہے۔ اول آپ کے صاحبزادے مرشدی حضرت شاہ محمد رشید الحق 

صاحب مد ظلہ العالی و دام فیوضہ جن کا ذکر انشاء اللہ تعالی خاص طور پر آگے لکھا جائے گا۔ دوئم آپ کے برادرزادہ جناب مولوی غلام غوث رحمۃ اللہ علیہ ساکن موضع خرم پور ضلع چھپرہ۔آپ بڑے صاحب حال و قال تھے اور بڑے جید عالم تھے۔آپ کے بہت شاگرد تھے اور ہنوز موجود ہیں۔ اس حقیر کے والد نے بھی آپ سے پڑھا تھا۔ آپ کی وفات اپنے مکان پر بتاریخ ۷؍رمضان بروز جمعہ وقت صبح ۱۳۱۰ھ کو ہوئی۔ چہارم مولوی سخاوت حسین عماد پوری بہاری رحمۃ اللہ علیہ آپ بھی بڑے عالم تھے اور آپ کے شاگرد اکثر بہارشریف میں موجود ہیں۔ بہار میں آپ کی بڑی قدر تھی ۔ کوئی فتویٰ بغیر آپ کے دستخظ کے مستند نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دعاتعویز میں برابر اثررہا، بہار بھرمیں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہوگا جہاں آپ کا تعویز نہ چلتا ہو۔ حتی کہ صاحب سجادہ بہار شریف کے یہاں بھی ضرورت ہوتی تو آپ ہی بلوائے جاتے تھے۔ گویا آپ کی ولایت بہار بھر میں تھی۔ آپ کی وفات بتاریخ ۵؍شوال ۱۳۱۱ھ بہ مقام عماد پور ہوئی۔ پنجم شاہ امجد حسین مخدوم زادہ مقام روضہ چھپرہ کے ہیں۔

آپ کی وفات کے بعد اکثر لوگوں نے چند بار خواب و بیداری میں دیکھا ہے چنانچہ تین بار اس خاکسار نے بھی خواب میں دیکھا ہے کہ ایک بار دیکھا کہ بہت بڑاباغ لب دریا ہے اس کے بیچ میں ایک خوش نما کوٹھی ہے اور باغ میں نہریں جاری ہیں اور مہندی کی ٹٹی نہایت خوبصورت ترشی ہوئی ہے اس کوٹھی کے دکھن جانب کے بارآندے میں آپ بیٹھے ہیں اور میں باہر پھاٹک سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے پیر و مرشدخلوت سے نکل کر پالکی میں سوار ہوئے اور پالکی کو ایک طرف آپ اور پیارے صاحب اور دسری طرف منشی احمد امیر صاحب مرحوم اور مولوی خدا بخش خاں صاحب بہادر مد ظلہ العالی نے اپنے کاندھے پر اٹھایا اور تیسری بار دیکھا کہ خانقاہ شریف کے پچھم اور دکھن کو نے میں آپ دیسی کپڑے کا سفید کرتا اور پاجامہ پہنے ہوئے بیٹھے ہیں اور پیارے صاحب اور نواب لطف علی خاں مرحوم نہایت مودب سامنے بیٹھے ہیں اور ہماری دادی صاحبہ مرحومہ نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے ایک پگڑی ان کو عنایت فرمائی اور فرمایا کہ اس کو حسیب کو دیناوہ یہ باندھ کر کچہری جایا کرے۔ اس وقت تک اس خاکسار کو کچہری سے کچھ سروکار نہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد میں نوکر ہوااور کچہری جانے لگا۔ اور مولوی علی حسین مرحوم ساکن چھپرہ یکے از مریدان نے اپنے انتقال کے وقت بیداری میں دیکھا کہ کلمہ تلقین فرماتے ہیں اور مولوی رفیع الدین صاحب مرحوم یکے از قرابت مندان و مریدان سے آپ کے تھے ان کے انتقال کے وقت ان کے یہاں مولوی حکیم وحیدالدین صاحب مرحوم نے آپ کو عالم بیداری میں دیکھا کہ پریشان خاطر ہیں اور بعد انتقال بھی مغموم دیکھا۔ ان دونوں فعلوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بے شک بوقت مرگ پیران کی امداد ہوتی ہے۔

(انوار الاولیا مؤلفہ مولوی حسیب اللہ مختار، مرتب سید نعمت اللہ، مطبوعہ بساط ادب کراچی)