۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

محی السالکین حضرت مولانا سید شاہ نورالحق طپاں ابدال رحمۃ اللہ علیہ

محبوب رب العالمین حضرت خواجہ عمادالدین قلندر پھلواروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خانقاہ، خانقاہ عمادیہ کے دوسرے سجادہ نشیں اور حضرت تاج العارفین پیر مجیب اللہ قادری پھلواروی رحمتہ اللہ علیہ کے بڑے پوتے حضرت نور الحق بن عبد الحق قدس سرہما ہیں۔ ماہ جمادی الثانی روز جمعرات ۱۱۵۶ھ میں پیدا ہوئے۔ محی السالکین لقب اور طپاں تخلص ہے۔

آپ نے ابتدائی علوم اپنے والد ماجد سے پھر اپنے دادا تاج العارفین اور پھوپھا ملا وحید الحق ابدال پھلواروی سے حاصل کیے۔ آپ کم سن ہی تھے کہ والد ماجد حضرت شاہ عبدالحق قدس سرہ ٗ کو مرشد آباد کی قطبیت تفویض ہوئی اور ماہ رجب ۱۱۶۲ھ میں وہ مرشد آباد چلے گئے۔ آپ کی مکمل تعلیم و تربیت دادا حضرت تاج العارفین نے کی۔ سترہ سال کی عمر میں علوم ظاہری سے فراغت پائی اور اسی سال ۱۴؍رمضان المبارک ۱۱۷۳ھ کو اپنے جد امجد حضرت تاج العارفین کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور تعلیم باطنی کے حصول میں لگ گئے۔ (اس کا تذکرہ حضرت طپاںؔ نے اپنے قصیدہ مطلع انوار میں کیا ہے)
حضرت شمس العارفین شاہ غلام نقشبند سجادؔ قدس سرہ ٗکے وصال فرمانے کے بعد فاتحہ چہارم کے موقع پر ۶؍ ذیقعدہ ۱۱۷۳ھ روز جمعرات حضرت تاج العارفین پیر مجیب اللہ قادری قدس سرہ ٗنے تمام طرق سلاسل کی اجازت عامہ و تامہ دے کر خرقہ خلافت عطا فرما کر اپنے پیر و مرشد محبوب رب العالمین حضرت عماد الدین قلندر قدس سرہٗ کے سجادہ پر بٹھادیا، جس کی بشارت بارگاہ قلندریت و غوثیت سے ہوئی تھی۔ بوقت سجادگی تمام رسومات خود تاج العارفین نے اپنے دست مبارک سے انجام دیں اور اپنے چہیتے پوتے کو اپنے پیر و مرشد کی خانقاہ سپرد کردی ۔سجادہ نشینی کی تاریخ حضرت شاہ وحید الحق ابدال پھلواروی قدس سرہ ٗنے اس طرح نظم کی ہے ۔

آں عزیز زمانہ نور الحق
پاک دل، پاک ذات، پاک نہاد
جد و ہم پیر او نشانیدش
سر سجادہ جناب عمادؔ
سنہ اش ایں دعا بجو کہ''ازو
خانقاہ قلندری آباد''
۱۱۷۳ھ

تب سے اب تک خانقاہ عمادیہ کی سجادگی آپ کی اولاد ذکور میں چلی آرہی ہے۔ والد گرامی حضرت سید شاہ فرید الحق عمادی علیہ الرحمتہ و الرضوان، حضرت طپاں کی چھٹی پشت میں ہیں اور خانقاہ عمادیہ کے نویں سجادہ نشین تھے۔ ان کے وصال فرمانے کے بعد ۲۵؍ذی الحجہ ۱۴۲۲ھ کو یہ خدمت مجھ کمترین حقیر فقیر راقم الحروف کے سپرد ہوئی۔

سجادگی کے بعد حضرت تاج العارفین نے ان کی شادی حضرت شمس العارفین شاہ غلام نقشبند سجادؔ قدس سرہٗ ابن خواجہ عمادالدین قلندر قدس سرہٗ کی بڑی صاحبزادی حضرت بی بی واجدہ سے کردی۔

حضرت شاہ عصمت اللہ ہرلاوی کے مکتوب سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو شہر پٹنہ کی قطبیت عطا کی گئی تھی اور ابدال بھی بنائے گئے تھے یہی وجہ کی قدیم مسودات اور کتابوں میں آپ کے نام کے ساتھ لفظ ابدال لکھا ہو ملتا ہے۔ 

بارگاہ حضرت غوثیت مآب شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ میں آپ کو ارادت خاص حاصل تھی۔ اذکار سلسلہ قلندریہ کے علاوہ اذکار و اشغال قادریہ کی طرف آپ کا شغف زیادہ تھااور قادریت کا غلبہ تھا۔"انوار الازکیا" اور سجادہ نشینان خانقاہ کے مطابق بارگاہ غوثیت سے استمداد فرمانے کی عام اجازت حاصل تھی اور اس بارگاہ میں آپ کو روزانہ کی شرف باریابی حاصل تھی۔ اوراد و اشغال اور اذکار وغیرہ آپ براہ راست بارگاہ غوثیت سے دریافت فرماتے تھے،اور اگر کوئی اہم معاملہ ہو تا تو بارگاہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم میں حاضری کی بھی اجازت حاصل تھی۔ جب چاہتے بارگاہ مرتضوی سے استفادہ فرماتے تھے۔ امور مخفیہ سے متعلق استخارہ میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا اور کبھی غلط نہیں ہوتا تھا۔ حضرت تاج العارفین قدس سرہٗ کو شمس العارفین حضرت سجاد ؔ کے بعد خاندان عمادو مجیب میں آپ ہی کے مکاشفات و معلومات پر سب سے زیادہ اعتماد تھا۔

خانقاہ عمادیہ اور اس کی شاخ تمام خانقاہوں میں جس قدر معلومات، مکاشفات، اوراد، اشغال اور اذکار ہیں وہ حضرت تاج العارفین کے واسطے آئے ہیں اور ان کے بعد حضرت شمس العارفین اور محی السالکین شاہ نور الحق طپاںؔ قدس سرہ ٗکے واسطے سے آئے ہیں الا ماشاء اللہ۔ اکثر نوافل و اعمال و اذکار آپ کی معلومات کے واسطے سے ان خانقاہوں میں دائر و سائر ہیں۔ فنون تعویذات علم تکسیر، علم رمل، علم قیافہ، علم ہیئت، علم فالنامہ اور تمام علوم ادعیہ میں آپ کو مہارت حاصل تھی۔ سجادہ نشینان عمادیہ کی سلسلہ وار روایتوں کے مطابق حضرت طپاںؔ کو بارگاہ رسالت مآبﷺ سے ایسا فیض با کمال حاصل تھا کہ دعائیں اپنی تاثیر اور فوائد خود بتایا کرتی تھیں، دربار خاص حضرت رسالت مآب ﷺ میں حاضری ہوا کرتی تھی اور یہ فیوضات، معرفت کی انتہائی منزلوں میں پہنچ کرہی حاصل ہوتی ہیں اہل معرفت اسے اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

شاعری آپ کی فطرت میں شامل تھی، بچپن ہی سے شاعری کرنے لگے شاعری میں کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہ نہیں کیا اس کے باوجود آپ کے چار فارسی دواوین بقلم شاعر کتب خانہ عمادیہ میں موجود ہیں اور اشعار عہد طفولیت کے عنوان سے ایک بیاض الگ شاعر کے دست خاص کی موجود ہے۔ فارسی کے علاوہ اردو اور عربی میں بھی شاعری کی ہے۔ ابتدائی زمانہ میں ہی آپ کا کلام کسی نے حزیں اصفہانی کوبنارس جا کردکھایا۔ حزیں نے ان ہی اوراق پر لکھ دیا کہ'' درہمانا کہ کلام خوب است و برخے ازیں مرغوب امابوئے پیرزادگی میں آید'' چونکہ آپ کے کلام پر تصوف کا رنگ اتنا غالب تھا ایک استاد شاعر کو اس کا اندازہ ہو جانا لازمی تھا۔ یقیناًکلام میں کلیم کا جلوہ نظر آتا ہے۔ حضرت طپاںؔ کے اردو مرثیے کتب خانۂ عمادیہ، پٹنہ میں موجود ہیں۔ آپ کی ایک اردو غزل بہت مشہور جسے خانقاہوں کی مجلس سماع میں قوالان سنایا کرتے ہیں اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

تمنا تھی کہ ہر دم تیری صورت دیکھتے رہتے
تو ہوتا سامنے ہم تا قیامت دیکھتے رہتے
کیا سجدے میں لاکر کس نے ہم کو کشتۂ حیرت
جو ہوتے بت کدے میں حق کی قدرت دیکھتے رہتے
طپاںؔ ہم خود نہ ہوتے بیچ اور ان کی آنکھوں سے
لگائے ٹکٹکی وہ پیاری صورت دیکھتے رہتے

حضرت طپاں جس دور سے تعلق رکھتے ہیں اس کے اعتبار سے آپ کی اردو شاعری میں جو روانگی اور شگفتگی ہے یہ آپ کی شاعرانہ حیثیت کو منفرد وممتاز کرتی ہے۔ حضرت سجادؔ قدس سرہٗ کے وصال پر آپ نے قطعہ تاریخ اردو میں لکھی ہے اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:


کیوں نہ ہم آنسو بہائیں آج سونی ہو گئی
خانقاہ حضرت محبوب رب العالمین
قطب عالم حضرت شاہ غلامِ نقشبند
سرسے پاتک صورتِ محبوب رب العالمین
کر گئے دنیا سے رخصت جانئیے گویا ہوئی
پھر دوبارہ رحلتِ محبوب رب العالمین
کیا بتائیں آہ! زیر مرقد پر نور آج
ہوگئی کیا کیفیتِِ محبوب رب العالمین
کہہ طپاںؔ خستہ یہ مصرع پے سال وصال
ہائے یوسف طلعتِ محبوب رب العالمین

(محبوب رب العالمین، حضرت سجادؔ کے والد خواجہ عماد الدین قلندر کا لقب ہے )

آپ کی دو مشہور تصانیف بھی ہیں۔ "انوار الطریقۃ فی اظہار الحقیقۃ" اس کتاب میں خاندان عمادیہ ، مجیبیہ، وارثیہ، کا تفصیلی ذکر ہے اور بزرگوں کے مختصر تراجم ہیں۔ سلسلہ قلندریہ عمادیہ اور قادریہ وارثیہ مجیبیہ کے اذکار و اشغال اور نوافل و اعمال کو ابواب کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ اس خانوادہ کے متعلق یہ سب سے پہلا مأخد ہے۔ ان سلاسل کی خانقاہوں میں اسی کتاب سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ دوسری کتاب "تبلیغ الحاجات الیٰ مجیب الدعوت" اس میں نوافل و اعمال، اصول تکسیر وجفر، تعویذات اور دعاؤں کا مبوب ذکر کیا ہے یعنی اعمال و نوافل، دعاؤں اور تعویذات کو اس کی خاصیتوں اور فوائد کے اعتبار سے الگ الگ ابوباب قائم کر کے ایک ضخیم کتاب کی شکل میں مرتب کیا ہے۔

حضرت تاج العارفین کے انتقال کے بعد اس خانوادۂ عماد و مجیب میں پھلواری شریف کے اندر سب سے زیادہ لائق و فائق، ذی علم ، ذی فہم، صاحب دانش اور صاحب معرفت شخصیت آپ ہی کی تھی۔ رعب و دبدبہ اور چہرے پر وجاہت بھی بہت تھی خاندانی روایتوں کے مطابق جب آپ کسی مجلس میں پہنچ جاتے تو اہل مجلس پر رعب طاری ہو جاتا ایسا معلوم ہوتاکہ معرفت کا ایک پہاڑ آگیا ہو۔ آپ کے سامنے بڑے چھوٹے سب ہی مؤدب رہتے تھے۔ اہل خانوادہ اپنے تمام امور اور مشورے کے لیے آپ ہی سے رجوع کرتے اور آپ اس خانوادے کے سر خیل کی حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت شاہ نعمت اللہ قدس سرہ ٗجو آپ کے چچا اور خانقاہ مجیبیہ کے پہلے سجادہ نشیں تھے آپ سے چاربرس چھوٹے تھے۔ تاج العارفین کے بعد ان کی تعلیمات ظاہری و باطنی کی تکمیل حضرت طپاںؔ ہی نے کی تھی۔

محی السالکین حضرت شاہ نور الحق طپاںؔ کے صرف دو خلفاء اجل ہوئے۔ حضرت مولانا حافظ شاہ وجیہ اللہ قدس سرہٗ جو آپ کے بھانجہ (خواہر زادہ) تھے طریقت کا اجرا ان سے زیادہ نہ ہو سکا اس لیے کہ عمر کم پائی اور طپاںؔ کے سامنے ہی وصال فرماگئے۔ دوسرے غوث الدہر حافظ قرآن و صحیحین قطب الاقطاب شاہ محمد ظہورالحق قدس سرہٗ جو آپ کے صاحبزادے تھے۔ حضرت ظہور کو آپ نے اپنی حیات ظاہری میں ہی معرفت کے درجۂ کمال پر پہنچا یا اور تمام سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت عامہ عطا فرماکر اپنے سامنے سجادۂ عمادیہ پر بٹھادیا اور خود سجادگی سے الگ ہو گئے۔

شاعری میں آپ کے متعدد شاگرد تھے جن میں حضرت شاہ ابوالحسن فردؔ قدس سرہٗ سب سے ممتاز اور صاحب دیوان شاعر ہوئے ہیں۔

حضرت طپاںؔ ۱۲۳۱ھ میں ترک وطن کر کے پھلواری شریف سے پٹنہ سیٹی آگئے۔ موئے مبارک حضور نبی کریمﷺ ، تمام تبرکاتِ بزرگان اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ میر اشرف کے مقبرہ میں قیام کیا۔ ۴؍شعبان ۱۲۳۳ھ روز شنبہ آپ کا وصال ہوا۔ میر اشرف کے مقبرہ پٹنہ سیٹی سے تدفین کے لیے لعل میاں کی درگاہ پھلواری شریف پا پیادہ لے جایا گیا اور حضرت برہان الدین قادری عرف لعل میاں صاحب کی مزار کے پہلو میں پورب جانب مدفون ہیں۔ 

مآخذ:    ا۔ تذکرۃ الصالحین  مصنف مختار حسیب  اللہ
۲-انوار الاولیا مطبوعہ بساط ادب کراچی ص ۹۵، ۹۶ 
۳- انوار الاصفیا و غیرہ

۴- مسودہ "انوار الازکیا" از مختار حسیب اللہ : کتب خانہ عمادیہ۔

(از : مصباح الحق عمادی، مطبوعہ گلدستہ مشاعرہ نمبر ۳ منعقدہ خانقاہ عمادیہ پٹنہ)