۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

زبدۃ العارفین حضرت مولانا سید شاہ رشید الحق عمادی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت علی امیر الحق قدس سرہٗ کی وفات کے بعد بتاریخ ۱۸؍محرم الحرام بروز جمعہ ۱۳۰۲ھ کو سیدنا و مرشدنا مولانا حاجی سید شاہ رشید الحق کو بہ اجماع اراکین خاندان مجیبیہ و عمادیہ و اتفاق آرائے سائر عمائد عصر آپ کے عم محترم حضرت مولانا حافظ محمد فقیر الحق قدس سرہٗ نے آپ کو مجمع عام میں سجّادہ عمادیہ پر بیٹھا دیا۔ ولادت با سعادت آپ کی بست و ششم (۲۶)جمادی الثانی کو ۱۲۶۲ھ میں بہ مقام شہبازپور متصل قصبہ پھلواری اپنی پھوپھی کے یہاں ہوئی ۔ مادہ تاریخ ولادت با سعادت نیربخت اور مظہر العجائب ہے۔ حضرت علی امیر الحق آپ کے والد ماجد نے آپ کی ولادت باسعادت کا قطعہ تاریخ لکھا ہے درج ذیل ہے:

نور عینی مرا عنایت کرد
آں خداوند خالق رزاق
خواستم چوں شہود قادر بخش
گفت ہاتف "عنایت خالق" (۱۲۶۲ھ)

آپ کی تعلیم کی ابتداء حضرت مولوی و معنوی شاہ آل یٰسین قدس سرہٗ یعنی اپنے ممیرے داداسے ہوئی۔ پھر آپ نے مختلف بزرگوں سے ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ جب میزان الصرف شروع کر نے کی نوبت آئی تو حضرت علی امیر الحق قدس سرہ ٗنے آپ کی تعلیم اپنے ہاتھ میں لے لی۔ یہاں تک کہ آپ نے میزان سے لے کر آخر تک کل کتابیں اپنے والد ماجد سے تمام فرمائیں۔ اور درمیان میں تعلیم علوم باطنیہ بھی ہوتی جاتی تھی ۔ جب آپ کو علوم ظاہریہ کی تحصیل سے فراغت ہوئی تو علوم باطنیہ کی رفتارتیز کردی گئی۔ بیعت تو سترہ برس کی عمر میں یعنی ۱۲۷۹ھ میں ہو چکی تھی اور تحصیل علوم باطنیہ تکمیل مدارج کے بعد۱۲۹۶ھ میں آپ کو اپنے اخی عمزاد (چچازاد بھائی) مولوی معنوی سید شاہ محمد نذیر الحق فائز عمادی قلندری قدس سرہٗ کے ساتھ ساتھ حضرت علی امیر الحق قدس سرہ ٗنے اجازت و خلافت عنایت فرمائی۔ اور ایک ہی اجازت نامہ دنوں کے نام لکھ کر حوالے فرما یا۔ آپ کو حضرت امیر الاولیاء کے زمانے سے ریاضت و مجاہدات کا خاص شوق تھا یہی وجہ تھی کہ جوانی میں آپ کے با اثر اور صاحب قوت ہونے کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھ گیاتھا۔ باوجود مشغلہ ریاضت و مجاہدات و افکار و اشغال کے آپ نے درس و تدریس کے لئے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت نکال لیا تھا چنانچہ اس وقت تک آپ کے تلامذہ کی معتدبہ تعداد موجود ہے۔جن میں سے اکثر لوگ نہایت قابل ہیں۔ ۱۲۹۰ھ میں آپ اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ شعائر حج سے بھی فراغت حاصل کر آئے۔

آپ کے مبارک کارناموں میں بہتری باتیں لکھنے کے قابل ہیں وہ ایک مہتمم بالشان امریہ ہے کہ حضرت امیر الاولیاء کے آخر عہد میں جو خانقاہ و مسجد کی عمارت بنی وہ آپ کے زیر اہتمام بنی اور پھر آپ نے اپنے عہد سجادہ نشینی مین بھی توسیع خانقاہ مسجد فرمائی اورعمارتیں بنائیں۔ آپ نے اپنے عہد میں یہ بھی معمول فرمایا کہ جمعہ کو وعظ و نصائح بیان فرمایا کرتے۔ بہت زمانہ تک یہ دستور رہا جب نقرس کی بیمار ی کی وجہ سے مجبور ہوگئے تو معمول بھی موقوف ہو گیا۔ بیان آپ کا بالکل آنچہ ازدل خیزدبردل ریزد کا مصداق ہوا کرتاتھا۔ سنگ دل آدمی دوچارہی باتوں میں موم ہو جاتا تھا ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں آپ کبھی کسی بات کا خیال نہ فرماتے تھے۔ جس شخص میں جو برائی دیکھی بغیر کسی رکاوٹ کے صاف صاف محض خلوص و محبت کے ساتھ اس کے منہ پر فرمادیا کرتے تھے، اکثر ہنود بھی آپ کی صحبت کیمیا اثر سے مستفید ہوئے ہیں۔ رموز تصوف و نکات حقانی و معارف کو آپ بہت آسانی اور سہولت کے ساتھ سمجھادیتے تھے۔ اہل بدعت سے آپ کو طبعاً تنفر تھا۔ کبھی ایسے لوگوں کی صحبت یا ان سے ارتباط پسند نہیں فرماتے تھے۔ ۱۳۲۰ھ کے شوال میں آپ کا ارادہ دوبارہ حج و زیارت سے مشرف ہونے کا ہوا۔ چنانچہ یہاں کا بند و بست یہ کیا کہ جائداد و موروثی کو اپنی اہلیہ کے نام مقرری حیات کردیا اور جائدات موقوفہ کے نسبت ایک وصیت نامہ تعمیل کیا اس میں یہ شرط لکھی کہ:

"منمقر نے اپنے پسر مولوی سید شاہ حبیب الحق جو نہایت لائق و دیانت دار و پرہیزگار ہیں متولی واسطے زمانہ مابعد ممات اپنے مقرر کیا مناسب ہوگا کہ بعد ممات منمقر کے مولوی سید شاہ محمد حبیب الحق موصوف متولی سجادہ نشین خانقاہ ہوکر کل انتظام جائداد کا کریں" الخ 

یہ سب انتظام کر کے آپ نے بتاریخ۱۳؍ شوال بروز شنبہ وقت ایک بجے دن کو مسجدمیں دوگانہ ادا کیا اور خانقاہ عرفاں پناہ سے آپ تشریف لے گئے اور بنارس حضرت مولانا رسول نما ؒ کے مزار مبارک پر تشریف لائے اور پھر وہاں سے رخصت ہوکر لکھنو پہنچے اور شاہ مینا علیہ الرحمۃ و حضرت صوفی شاہ عبد الرحمٰن علیہ الرحمۃ کے مزار پر تشریف لے گئے اور فاتحہ پڑھی پھر وہاں سے دہلی تشریف لے گئے وہاں پہنچ کر پہلے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ  اللہ علیہ کے مزار پر پھر حضرت نجیب الدین فردوسی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر و حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر تشریف لا کر فاتحہ پڑھی پھر وہاں سے اجمیر شریف تشریف لائے وہاں چار روز تک حضرت خواجہ کے مزار پر حاضری رہی وہاں سے احمدآباد و گجرات تشریف لے گئے وہاں حضرت سید عالم بخاری اور حضرت شاہ سلطان احمد شاہ قدس اسرارہما کے مزارات پر تشریف لے گئے پھر وہاں سے محلّہ خانپورہ میں حضرت شاہ وجیہہ الدین قدس سرہٗ کے مزارپر فاتحہ پڑھی پھر محلّہ شاہ پور میں حضرت شاہ عبد الوہاب قادری قدس سرہٗ کے مزار پر پہنچے وہاں فاتحہ پڑھی پھر دلی دروازہ کے باہر حضرت موسیٰ صاحب سہاگ کے مزار پر تشریف لے گئے وہاں فاتحہ پڑھی اور ۹؍ذی الحجہ کو بمبئی پہنچے اور ۱۶؍محرم کو جہاز پر سوار ہوئے۔ عدن میں پہنچ کر حضرت عبد روس و حضرت سیخ احمد عراقی قدس اللہ اسرار ہما کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔ بتاریخ ۷؍ صفر کو مکہ معظّمہ پہنچے وہان دومہینے اٹھارہ روز قیام رہا پھر وہاں سے بیت المقدس جانے کا ارادہ شریف مکہ سے ظاہر کیا۔ شریف مکہ نے ایک خط بنام والی قدس اور دوسرا بنام والی شام اس مضمون کا لکھ دیا کہ حضرت مولانا رشید الحق صاحب ہندستان کے بڑے بزرگ ہیں یہ زیارت کو جاتے ہیں آپ سے ملیں گے ان کو کسی بات کی تکلیف نہ ہو چنانچہ یہ خط لے کر آپ بتاریخ ۲۵؍ ربیع الثانی بہ ارادہ سفر شام و بیت المقدس مکہ معظمہ سے روانہ ہوئے اور مصر پہنچے وہاں حضرت زینبؓ و رقیہؓ اور سیدہ فاظمہؓ المتوفیہ و سید ہ حفصہؓ اور حضرت امام زین العابدینؓ اور حضرت سیدہ عائشہؓ بنت امام زین العابدین علیھم السلام و امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے استاد امام ابو اللیث رحمۃ اللہ علیہ کے مزارات کی زیارت کی اور اما م حسین علیہ السلام کےسر مبارک کاجہاں مدفن ہے اس مقام کی زیارت کی آٹھ رات مصر میں رہ کر اسکندریہ پہنچے اور وہاں حضرت دانیال پیغمبر علیہ السلام و حضرت اقبال حکیم و حضرت ابوالعباس المرعشی و حضرت یعقوب الغزنی و امام ابو الخیر مصنف قصیدہ بردہ کے مزارات کی زیارت کی تیسرے روزوہاں سے روانہ ہوئے اور یافہ ہوتے ہوئے بیت المقدس پہنچے۔ پہلے شیخ الحرم سے ملاقت ہوئی۔ بعد ازاں والی قدس سے ملاقت ہوئی بہت عزت کے ساتھ ملے اور سخرہ و مصلی حضرت رسول اللہ ﷺ و مصلی حضرت خضر علیہ السلام و مسجد اقصٰی کی زیارت کی اور تمام انبیاء کے مزارات کی زیارت کی بارہ دن کے بعد وہاں سے یافہ روانہ ہوئے یہاں پہنچ کر والی دمشق سے ملاقات کی والی دمشق نے آپ کی بڑی عزت کی پھر تمام بزرگوں کے مزارات کی زیارت کی یہاں کوئی گلی کوچہ زیارت سے خالی نہیں ہے۔ تیس ہزار پیغمبروں کی قبروہاں ہے۔ تیسرے روز دمشق سے ریل پر سوار ہو کر مدینہ طیبہ روانہ ہوئے تین روز میں مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے۔ ایک مہینہ پانچ روز مدینہ طیبہ میں رہے وہاں کی رجبی دیکھی۔ ۲۸؍رجب کو مدینہ طیبہ سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے اور نویں شعبان وقت عصر مکہ معظمہ پہنچے اور رمضان کے مہینے میں سولہ عمرے کئے اور جمادی الاول ۱۳۳۲ھ کو مکہ معظمہ سے ہندستان روانہ ہوئے اور دسویں شعبان ۱۳۳۲ھ بروز اتوار بو وقت سات بجے دن کو خانقاہ عمادیہ میں واپس تشریف لائے۔ اس سفر کی پوری کیفیت آپ نے اپنے سفر نامے (رحلۃ الرشیدالیٰ مقامات السعید) میں درج فرمایا ہے۔ حج سے تشریف لانے کے بعد آپ پھلواری شریف حضرت عمادالدین قلندر ؒ اور شاہ مجیب اللہؒ کے مزار پر تشریف لے گئے اور جناب قبلہ حضرت شاہ محمد بدرالدین صاحب دام فیضہ نے آپ کے ساتھ اخلاق بہت کیا ۔ خلوت سے باہر صحن خانقاہ تک آ کر استقبال کیا اور دونوں بزرگ بغل گیر ہوئے۔ وہ سماں بھی قابل دید تھا اس روز حضرت قبلہ دام فیوضہ کی طرف سے نہایت کشادہ پیشانی سے دعوت ہوئی اور دنوں بزرگ خلوت میں تشریف لے گئے۔ حضرت شاہ رشید الحق قدس سرہ ٗجب تک سفر میں رہے امور خانہ داری و خانقاہ داری کو آپ کے صاحبزادے حضرت جامع الشریعت و الطریقت مولانا حافظ سید شاہ محمد حبیب الحق صاحب دام فیوضہ نے حسب وصیت نامہ بحسن و خوبی انجام دیا۔ حضرت شاہ رشید الحق اپنے وصال سے برس روز پیشتر اکثر رویا کرتے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کا تذکرہ فرمایا کر تے تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا خدا سے یہ تھی کہ موت کی تکلیف ہم کو نہ ہو آسانی سے روح نکال لی جائے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے آپ کو سیب سنگھایا اور روح پرواز کر گئی۔ لہٰذا میں بھی سکرات موت سے ڈرتا ہوں ۔ دیکھئے ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے۔ ہماری بھی دواستد عا اللہ تعالیٰ جل جلالہ عم نوالہ کے حضور میں ہے ایک تویہ کہ سکرات کی تکلیف نہ ہو۔ دسرے یہ کہ جس وقت ہماری روح پروازکرنے لگے اس وقت ہمارے عزیز و اقارب و فرزند ان نہ ہوں۔ کیونکہ وہ وقت خاص راز و نیاز کا ہو گا ۔ سوائے ہمارے اور خداوندے تعالیٰ کے دوسرا شخص نہ ہو ورنہ بال بچوں کو دیکھ کر خیالات منتشر ہو جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کی دونوں استداؤں کو قبول فرمایا۔ 

۱۳۳۸ھ کے رمضان المبارک میں کل شہر پٹنہ کے لوگوں نے ۲۳؍رمضان کو خطبہ الوداع پڑھا۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ ہم کو خداوند کریم کی ذات سے یہ امید ہے کہ ایک جمعہ اور رمضان المبارک میں ہم کو ملے گا۔ ہم اس جمعہ کو خطبہ الوداع پڑھیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کی تیس تاریخ رمضان کودوسرا جمعہ ہو ا ور آپ نے خطبہ الوداع پڑھا اور کل شہر کی مسجد وں میں دوبارہ الوداع پڑھاگیا۔ آپ عیدین کی نماز عید گاہ میں پڑھایا کرتے تھے۔ ۱۳۳۸ھ کے بقر عید کے خطبہ میں آپ کل لوگون سے رخصت ہوئے اور فرمایا کہ میں اب بہت بوڑھا ہوا موت و حیات کا کچھ ٹھکانا نہیں ہے کہ پھر ہم کو یہاں آنا اور نماز پڑھانا نصیب ہو یا نہ ہو آپ لوگ ہمارے واسطے دعائے مغفرت کریں۔ ۲۰؍ جمادی الاول ۱۳۳۹ھ کو عرس حضرت محبوب رب لعالمین کا تھا۔ حضرت اس مجلس میں برابر شریک رہے اور وجدو حال بھی برابر جاری رہا۔ اکثر مہمانان جواس عرس میں تشریف لائے تھے وہ اکیس تاریخ دن گزار کر شب بائیس کو رخصت ہوئے۔ عند التذکرہ آپ نے فرمایا کہ ہم کو خام قبر پسند ہے۔ اگر ہماری قبر خام ہو تو بہتر ہے۔ پچیس جمادی الاول کو آپ کے پوتی داماد جناب شاہ مسیح الدین احمد صاحب سلمہ اللہ تعالی مع اہل و عیال بہار شریف اپنے مکان پر جانے والے تھے۔ ان سے فرمایا کہ تم اس تاریخ کو نہیں جاسکتے ہو۔ پھر شب کے وقت عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر کھانا تناول فرمایا اور سورہے۔ آپ کا معمول تھا کہ شب کو لالٹین بجھا کر سویا کرتے تھے اور دو بجے شب کو اٹھ کر خود اپنے دست مبارک سے لالٹین روشن کرتے اور سماور میں آگ دے کر خود رفع ضرورت کو تشریف لے جاتے۔ وہاں سے آکر وضو فرماتے اور تہجد کی نماز ادا فرما کر ذکر و اشغال میں مشغول ہوتے تھے اور نماز فجر کے قریب ایک طالب علم ظفیر الدین نامی جو آپ کی چارپائی کے قریب سویا کرتا تھا اس کو اٹھا دیا کرتے تھے وہ اٹھ کر آپ کے منہ دھونے کا سامان درست کردیتا تھا۔ آپ نماز فجر پڑھ کر تلاوت قرآن شریف دلائل خیرات میں مصروف ہوتے تھے۔ اس روز بھی آپ حسب معمول اٹھے اور کل معمولات سے فارغ ہو کر بسر ا ستراحت پر لیٹ گئے اور ذکر نفی اثبات میں مشغول ہوگئے مگر طالب علم مذکور کو نہ اٹھایا۔ جب دھوپ نکل آئی تو وہ طالب علم خود اٹھا اور منہ دھونے کا سامان درست کرنے کو چلا کر ایک آواز اللہ کی زور سے اس کے کان میں آئی۔ مگر اس نے چارپائی پر خیال نہ کیا۔ بلکہ سمجھا کہ آپ جہاں ذکر کرتے ہیں وہیں ہیں۔ اس کے بعد وہ طالب علم اپنے حوائج ضروری کو چلا گیا۔ وہاں سے آکر دیکھا تو حضرت سوئے ہوئے ہیں، اس نے جگانے کے خیال سے پائے مبارک کو دبانا شروع کیا لیکن نہ اٹھے تو اس کو کچھ شبہ ہوا اور خلوت سے باہر آکر آپ کے پوتے مولوی صبیح الحق صاحب سلمہ اللہ تعالی سے واقعہ بیان کیا۔وہ بھی خلوت میں گئے اور آپ کو ہلایا تو آپ نہ تھے، لیکن بدن میں گرمی و نرمی تھی۔ تب وہ روتے ہوئے زنانہ مکان میں گئے اور ایک کہرام مچ گیا۔ خیال کیا گیا کہ لالٹین روشن تھی اور جس جگہ وضوفرمایا کرتے تھے وہاں وضو کا پانی گراہوا اور بدن بھی نرم و گرم ہے اور کسی طرح کا تغیر چہرہ مبارک پر نہیں ہے تو لوگوں کو شبہ ہوا کہ سکتہ ہے۔ ایک آدمی کو آپ کے صاحبزادے حضرت شاہ محمد حبیب الحق صاحب دام فیوضہ نے ڈاکٹر وارث صاحب کو بلانے کے واسطے بھیجا۔ جناب ڈاکٹر صاحب بھی تشریف لائے مگر ان کے آنے سے پیشتریہ یقین ہو گیا کہ آپ راہی ملک بقا ہوئے کیوں کہ اللہ اللہ کا ضرب جو قلب پر لگایا تھا چہرہ اسی طرف جھکا ہوا تھا۔حضرت صاحبزادے صاحب نے آپ کا سرمبارک اپنی گود میں لے لیا اور گریہ و بکا کرنے لگے۔ یہ خبر تمام شہر میں مشتہر ہو گئی لوگ جوق درجوق آنے لگے۔ تھووڑی دیر میں ہزاروں آدمیوں کا مجمع ہو گیا۔ رؤ ساشہر اور غرباجمع ہو گئے اور آپ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ آپ کے دست مبارک میں ایک انگوٹھی تھی وہ مشکل سے اترا کرتی تھی مگر غسل کے وقت جب لوگوں نے اتارنا چاہا تو بہت آسانی سے اتر آئی۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ آپ نے خود انگلی بڑھادی۔ بعد غسل جب کفن پہنایا گیا تو آپ کے چہرے مبارک پر سرخی آگئی اور چہرہ منور و تاباں ہو گیا۔ بعدازاں نماز جنازہ با جماعت کثیر ہوئی اور تین سوآدمیوں کے قریب آپ کا جنازہ لے کر پیدل پھلواری تک لے گئے اور وہاں کے نیز اطراف و جوانب کے اکثر لوگ چونکہ جنازہ میں شریک نہیں ہوئے تھے اس لئے مولانا تمنا صاحب عمادی نے دوبارہ نماز کی تحریک پیش کی جناب شاہ محی الدین صاحب خانقاہ پھلواری مد فیوضہ نے فرمایا کے ہم لوگ دوبارہ نماز جنازہ کو صحیح نہیں سمجھتے اس لئے مجبور ہیں۔ آپ کا جی چاہے تو آپ پڑھئے۔ چناچہ مولانا تمنا صاحب اور مولانا حسین میاں صاحب وغیرہ ایک کثیر جماعت کے ساتھ اٹھے اور پانچ صفیں لمبی لمبی قائم ہو گئیں۔ مولانا تمنا صاحب امام کی جگہ پر جا چکے تھے کہ سامنے سے جناب حضرت شاہ بدرالدین صاحب زیب سجادہ مجیبیہ آتے ہوئے دکھائی دئیے تو مولانا تمنا صاحب نے ان کا انتظار کیا وہ آکر فوراًجنازے کے قریب کھڑے ہوگئے۔ مولانا تمنا صاحب نے واقعہ بیان کردیا کہ نمازتو پٹنہ میں ہو چکی مگر ہم لوگوں نےنہیں پڑھی تھی اس لئے یہاں دوبارہ نماز ہورہی ہے۔ حضرت ممدوح نے فرمایا کہ ہم بھی پڑھیں گے اور صف میں مل جانے کا ارادہ کیا تو مولانا تمنا صاحب امام کی جگہ سے ہٹ آئے اور عرض کیا کہ تب حضورہی نماز پڑھائیں۔ چنانچہ حضرت ممدوح نے ہی نماز شروع کی۔ اس وقت جو لوگ رک گئے تھے وہ بھی سب آکر جماعت میں مل گئے۔ جس وقت قبر میں جسم اطہر مبارک رکھا گیا تو وہ وقت قریب مغرب کا تھا مگر قبر مبارک ایسی روشن تھی جیسے صبح صادق کی روشنی ہوتی ہے اور باوجودیکہ آپ کے ایک دانت بھی نہ تھا۔ لیکن دیکھنے والوں کو قبر میں شبہ ہوتا تھا کہ آپ کے دانت موجود ہیں۔ یہ واقعہ بائیس جمادی الاول ۱۳۳۹ھ کا ہے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مزار شریف آپ کا خام پائیں مزار شاہ علی امیر الحق قدس سرہ کے ہے۔ اس کے دوسرے روز چارپائی پر سے جب فرش اٹھایا گیا تو اس کے نیچے سے ایک نوشتہ بدست خاص لکھا ہو اپایا گیا اس میں یہ چند اشعار کسی کے مشہور ہیں لکھے ہوئے تھے:

کوئی حرم کو کوئی بت کدے کو جائے ہے
کوئی تلاش معیشت میں سرکھپائے ہے
جو دل سے پوچھوں تو کس طرف کو جائے ہے
تو بھر کے آنکھوں میں آنسو یہ سنائے ہے
علی الصباح چو مردم بہ کاروبار روند
بلاکشان محبت بہ کوئے یار روند

آپ کے خلفاء میں حضرت جامع الشریعت والطریقت مولانا حافظ سید شاہ محمد حبیب الحق سجادہ نشین و حسان الہند مولانا حیات الحق معروف محی الدین تمنا سلمہ اللہ تعالیٰ و مولوی وحیدالدین نہسوی و مولوی شاہ حسن رضا مرحوم بیتھوی ہیں۔

(انوار الاولیا مؤلفہ مولوی حسیب اللہ مختار، مرتب سید نعمت اللہ، مطبوعہ بساط ادب کراچی)