۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

حبیب الاولیاء حضرت مولانا حافظ سید شاہ حبیب الحق عمادی رحمۃ اللہ علیہ

آپ کی ولادت ۲۸؍رمضان المبارک بروز جمعہ و قت اشراق ۱۲۹۵ھ کو ہوئی۔ تاریخی نام صابر بخت ہے۔ ۲۸؍شوال ۱۲۹۹ھ کو حضرت علی امیر الحق قدس سرہ' نے مکتب پڑھائی۔ ابتدائی کتابیں بیشتر اپنے والدماجد حضرت شاہ رشید الحق قدس سرہٗ سے پڑھیں اور متوسطات مولوی حفیظ اللہ صاحب مرحوم اور مولوی حکیم علی حیدر صاحب مرحوم اور مولوی عبد اللہ مرحوم سے پڑھیں، ہدایہ آخریں، صدرا، شمس بازغہ، حمد اللہ، قاضی مبارک ، زوائد ثلاثہ،شرح چغمنی ، شرح مواقف، توضیح تلویح، مسلم الثبوت، صحاح ستہ من اولہم الی آخر ہم، حضرت مولانا محمد کمال صاحب محدث بہاری علی پوری سے پڑھیں۔۱۲؍ ربیع الاول ۱۳۱۸ھ کو مولانا محمد کمال صاحب نے آپ کے سر پر دستارفضیلت باندھی۔ اس وقت علماء کو چھوڑ کر حاضرین کی تعداد تقریباً تین ہزار ہوگی۔ اس مجمع میں آپ نے سورہ ''العصر'' پر ایسی زبردست تقریر کی کہ حاضرین کی زبان سے بیساختہ سبحان اللہ کے نعرے بلند ہو جاتے تھے ۔دوسرے روز مولانا حکیم ظہیر احسن صاحب شوق نیموی حضرت شاہ رشید الحق قدس سرہٗ کے پاس خاص طور سے مبارکباد کے لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ عظیم آباد میں یہ صاحبزادے بہترین واعظ ہوں گے۔ ۲۸شوال  ۱۳۱۱ھ کو بروز عرس حضرت چراغ عظیم آباد مولانا حافظ سید شاہ محمد نصیر الحق قدس سرہٗ آپ کی بیعت ہوئی اور اسی وقت اجازت و خلافت تفویض ہوئی۔ اس وقت حاضرین نہایت پر کیف تھے۔ ہر شخص پر ایک کیفیت طاری تھی کی سماع (قوالی) میں بھی ایسی کیفیت کم دیکھنے میں آتی ہے۔

حضرت شاہ رشید الحق کے وصال کے چوتھے دن مجلس ایصال ثواب (قرآن خوانی) ہوئی اور اسی دن تمام مشائخین عظیم آباد و اطراف بہار کے سامنے مولانا شاہ محمد حبیب الحق صاحب کی سجادہ نشینی ہوئی تو پہلے خاندانی تبرکات یعنی تاج جعفری و سربند ونیم تنہ و کمر بند و تسبیح حضرت محبوب رب العالمین خواجہ عمادالدین قلندر ؒ بادشاہ قدس سرہ' کی عبا الفی حضرت مولانا حافظ سید شاہ نصیر الحق قدس سرہٗ کی پہنائی گئی۔ بعدہٗ سب سے پہلے خانقاہ حضرت مخدوم الملک کی طرف سے شاہ رشید الدین صاحب نے پگڑی پیش کی پھر حضرت مولوی شاہ محی الدین صاحب نے خانقاہ مجیبیہ کی طرف سے پگڑی اور دو روپیہ نذر پیش کیا۔ پھر تمام مشائخ کی طرف سے پگڑیان پیش ہوئیں۔ قوال حاضر تھے انہوں نے گاناشروع کیا اور ایسی مجلس جمی کی تقریباً چار ہزار آدمیوں کے مجمع میں کوئی ایسا نہ تھا جو پرکیف نہ ہو۔ ہر شخص پر خاص اثر تھا۔ اس وقت تمام اہل قرابت و متوسلین سلسلہ عمادیہ و مجیبیہ کا جو حال تھا وہ کیا بیان ہو ہر شخص حضرت سجادہ کے خرقہ کو بوسہ دیتا تھا اورفیضان حاصل کرتاتھا۔ ایک بجے دن کو مجلس ختم ہوئی اور حضرت خلوت میں جلوہ افروز ہوئے اور سجادہ پر متمکن ہوئے اور اسی وقت بہت لوگ داخل سلسلہ ہوئے۔ آپ تقریباً ۳۲ سال سجادۂ عمادیہ پر فائز رہے۔ اپنے دور کے جید عالم اور اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔آپ ہر جمعہ کو خانقا ہ کی مسجد میں تفسیر قرآن بیان فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر واعظ و خطاب فرماتے جن میں ۱۲؍ربیع الاول کو بیان سیرت رسول اکرم ﷺ اور ۹ محرم ذکر شہادت امام حسینؓ ۔ دونوں محفلوں میں کثیر تعداد مین لوگ شرکت کرتے تھے ۔ دونوں محفلیں آج بھی بحمد اللہ خانقاہ میں قائم ہیں۔ حضرت دعا بھی بڑے خشوع و خضوع سے مانگتے جس کا سب سے اہم موقع ۱۵؍شعبان کو نمازفجر کے بعد کا ہوتا ہے ۔

ایک بار پٹنہ اور اطراف میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی کا خطرہ تھا۔ نماز استسقاء کا اہتمام کیا گیا۔ پٹنہ سیٹی اسکول کے میدان میں آپ نے امامت فرمائی اور بارش کے لئے دعا فرمائی ۔ کہتے ہیں کی دعایوں قبول ہوئی کہ لوگ گھر واپس پہنچتے پہنچتے بارش میں بھیگ گئے۔ اس قدر بارش ہوئی کہ خشک سالی کا خطرہ ٹل گیا۔ آپ کو درس و تدریس سے بھی بڑا شغف تھا ۔ شاگردوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ ان میں ان کے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ صبیح الحقؒ اور مولانا حکیم شاہ حسین الحق ؒ کے علاوہ خانقاہ سملی کے سجادہ نشین شاہ فدا حسین ؒ (جوسرکار پٹنہ کے لقب سے جانے جاتے ہیں اور شاہ حسیب الدین مرحوم کے صاحبزادے حافظ شاہ وجیہ الدین نمایاں ہیں۔ حضرت بہترین خوش نویس اور ممتاز قاری تھے۔ خانقاہ میں تراویح خود پڑھاتے تھے۔

آپ کی شخصیت صبر و توکل کا پیکر تھی۔ دنیاوی جاہ و منصب کو کبھی خاطر میں نہ لائے۔ مرید بھی ہر کس و ناکس کو نہیں کرتے تھے۔ احکام شریعت کے سخت پابند تھے۔ آپ نے قرآن مجید کے تیسوں پارے کی تفسیر لکھی اور ایک رسالہ آثار قیامت کے نام سے لکھا یہ دونوں شائع ہو چکی ہیں۔ ۱۳۶۱ھ کے رمضان میں تراویح پڑھاتے ہوئے آپ پر فالج کا حملہ ہوا۔ ۲۵؍رمضان المبارک مطابق ۲۲؍دسمبر ۱۹۴۲ء کو ظہر کے وقت آپ نے رحلت فرمائی۔مریدوں اور عقیدت مندوں نے اپنے کاندھوں پر آپ کا جنازہ خانقاہ عمادیہ پٹنہ سیٹی سے تقریباً سولہ میل کے فاصلے پر پھلواری شریف لعل میاں کی درگاہ پہنچایا۔ آپ اپنے والد بزرگوار کے پائیں میں دفن کئے گئے۔ حضرت حمید عظیم آبادی نے اس مصرع سے سن وفات نکالا۔ ؂ ولی دیں حبیب الحق ہیں اور فردوس جنت ہے ۱۳۶۱ھ

آپ کی چار شادیاں ہوئیں۔ پہلی شادی حضرت شاہ امین احمد صاحب سجادہ مخدوم الملک قدس سرہ کی صاحبزادی سے ہوئی ۔دوسری شادی محسن پور میں ہوئی اس محل سے کوئی اولاد نہیں ہے۔ تیسری شادی شیخ پورہ میں ہوئی۔ چوتھی شادی مولوی ایوب صاحب کریم چک چھپرہ کی صاحبزادی سے ہوئی۔

آپ نے اولاد میں تین صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں چھوڑیں۔ بڑے صاحبزادے حضرت مولانا سید شاہ صبیح الحق ؒ آپ کے جانشیں ہوئے۔ دوسرے صاحبزادے مولانا حکیم سید شاہ حسین الحق عالم دین، طبیب اور ایک اچھے مقرر تھے۔ پٹنہ کے مدرسہ عربیہ سے درس نظامی میں فراغت کے بعد طبیہ کالج پٹنہ میں طب کی تعلیم حاصل کی اور وہیں شفا خانے میں ملازمت اختیار کی۔ ۱۹۸۳ء میں انچارج شفا خانہ کے عہد سے رٹائر ہوئے آپ نے خانقاہ میں بھی مطب قائم کررکھاتھا۔ کتب بینی محبوب مشغلہ تھا۔روزنامچہ لکھنے کا بھی شوق تھا۔ پٹنہ کی خانقاہوں ، مدرسوں، مسجدوں ، درگاہوں، اور مختلف محلوں اوریادگاروں کے بارے میں ایک کتاب "جودیکھا جوسنا" مرتب کی۔ ۱۸؍اگست ۱۹۹۶ء کو آپ کا انتقال ہوا۔ خانقاہ کے احاطے میں مدفون ہیں۔ آپ کے چھ صاحبزادے اور صاحبزادیاں ہیں ۔

حضرت مولانا شاہ حبیب الحق کے چھوٹے صاحبزادے حافظ سید شاہ وسیم الحق کراچی میں مقیم تھے۔ آپ کو شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ مضامین بھی لکھتے تھے اور شاعری بھی کرتے تھے۔ نہایت ہی اعلیٰ اخلاق کے مالک اور انسان دوست تھے۔ ۱۹۹۸ء میں پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن سے منیجر فنانس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ۲۰۱۰ء میں انتقال ہوا، کراچی میں مدفون ہیں۔

آپ کے تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہیں۔

(انوارالاولیا مؤلفہ مولوی حسیب اللہ مختار، مرتب سید نعمت اللہ، مطبوعہ بساط ادب کراچی)