۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

شمس العارفین حضرت سید شاہ غلام نقشبند سجاد قدس سرہٗ

حضرت مخدوم راستی کی نگری پھلواری شریف کے تمام سلاسلِ طریقت میں سلسلۂ عمادیہ اپنے بانی محبوب رب العامین سید عماد الدین قلندر قدس سرہ' کے عہد ہی سے سب سے نمایاں رہا ہے اور خود صاحب سلسلہ کی شخصیت گرامی بھی اپنے زمانے میں عموماً اور پھلواری شریف میں خصوصاً اس خانوادے میں انتہائی روشن نظر آتی ہے۔ حضرت محبوب رب العالمین عرف میاں صاحب قدس سرہٗ کے صاحبزادے حضرت شمس العارفین سید شاہ غلام نقشبندمحمد سجاد قدس سرہٗ اپنی کم عمری سے ہی علوم معرفت اور راہ سلوک میں شہرہ آفاق تھے۔ ۱۱۱۶ھ میں شمس العارفین کی پیدائش قصبہ پھلواری شریف میں ہوئی۔والد گرامی حضرت میاں صاحب نے آپ کا نام محمد سجاد اور عرفیت غلام نقشبند رکھی، چونکہ آپ کی پیدائش سے پہلے حضرت شاہ بہاالدین نقشبند قدس سرہٗ نے حضرت میاں صاحب کو آپ کی پیدائش اور بلند مرتبے کی بشارت دی تھی اسی لیے غلام نقشبند عرفیت رکھی گئی ۔ سلسلۂ نسب حضرت بی بی زینب بنت خاتون جنت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنھما سے ملتا ہے۔

ابتدائی تعلیم اور تربیتِ ظاہری خود حضرت میاں صاحب قدس سرہٗ نے دی جب آپ صرف آٹھ سال کے تھے کہ والد گرامی کا ۲۰؍جمادی الاول ۱۱۲۴ھ میں انتقال ہو گیا۔ پھر آگے کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری حضرت میاں صاحب کے مرید و خلیفہ حضرت تاج العارفین پیر مجیب اللہ قدس سرہٗ کے ذمہ سپرد ہوئی۔ تعلیم ظاہری تو حضرت تاج العارفین دیتے رہے، لیکن حضرت سجاد ؔ کی تعلیم باطنی براہ راست حضرت خضر علیہ السلام سے ہوتی رہی۔ والد گرامی کی حیات میں ہی تقریباً پانچ سال کی عمر سے سلوک و معرفت کی تعلیم حضرت خضر علیہ السلام سے شروع ہو چکی تھی۔ خاندانی روایتوں کے علاوہ حضرت محی السالکین سید شاہ نور الحق طپاںؔ قدس سرہٗ حضرت شاہ ابوالحیات پھلواروی اور دوسرے اکابرین نے بھی اسے ذکر فرمایا ہے۔

آٹھ سال کی عمر میں تبحّر علمی کا یہ عالم تھا کہ والد گرامی حضرت میاں صاحب کے انتقال کے دوسرے یا تیسرے روز حضرت تاج العارفین اپنے پیر و مرشد کی خانقاہ یعنی خانقاہ حضرت خواجہ عماد الدین قلندر (جو ان کے والد گرامی حضرت برہان الدین قادری کے ہی وقت سے موجود تھی) بیٹھے تھے کچھ دوسرے لوگ بھی موجود تھے علمی مجلس تھی حضرت تاج العارفین کے دائیں پہلو سے لگے حضرت سید شاہ غلام نقشبند سجادؔ بیٹھے تھے۔ کسی نے حضرت تاج العارفین سے مسلۂ جبر و قدر کے متعلق استفسار کیا، ابھی آپ جواب دینا ہی چاہتے تھے کہ حضرت سجادؔ نے کچھ بولنا چاہا اور شرما کر چپ ہو رہے، تاج العارفین انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، حضرت سجاد نے عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس مسئلہ پر میں کچھ روشنی ڈالوں ، تاج العارفین نے فرمایا بسم اللہ فرمائیے ہم لوگ سننے کے مشتاق ہیں۔ تاج العارفین کی اجازت کے بعد آپ نے اس مسئلہ پر انتہائی معرکۃ الآرا اور بر جستہ بحث فرمائی کہ حاضرین کی تسلی و تشفی ہوگئی درمیان تقریر حضرت تاج العارفین اور دیگر سامعین سبحان اللہ اور ماشاء اللہ کہہ اٹھتے تھے اور ساتھ ہی تمام حاضرین دم بخود تھے کہ یہ آٹھ سال کے بچے کو اتنا علم کہاں سے آگیا؟ ظاہر ہے کہ جب معلّم حضرت خضر علیہ السلام کی ذات بابرکات ہو اور پانچ سال کی عمر سے تعلیم پارہے ہوں تو نہ جانےکتنے علوم معرفت حاصل کیے ہوں گے۔ دسرے دن حضرت تاج العارفین نے اہل خاندان و مریدین میں اعلان فرمایا کہ کل پیر و مرشد حضرت میاں صاحب کی فاتحۂ چہارم ہے اور اس موقع پر میاں غلام نقشبند سجادؔ کی جانشینی عمل میں آئے گی۔ حضرت تاج العارفین نے آپ کی بیعت سلسلہ قلندریہ قادریہ عمادیہ میں لی اور دوسرے دن مشائخ پھلواری اور عظیم آباد کی موجودگی میں بڑے اہتمام سے ۲۳؍ جمادی الاول ۱۱۲۴ھ کو سجادگی عمل میں آئی۔ پٹنہ سیٹی کے محلہ کیوان شکوہ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت محمد عارف قلندر قدس سرہٗ (وفات ۱۱۵۵ھ) بھی مدعو کیے گئے تھے جو اپنی کبر سنی اور ضیعفی کے سبب نہ جا سکے، ایک خط اور قطعہ تاریخ سجادگی حضرت تاج العارفین کو بھیجی، قطعہ تاریخ حسب ذیل ہے:
 

نقش بند نگین صدق و صفا
منبع ابتدا و مصدر فضل
فخر اعیان محمد سجاد
اصغر سن و سال و اکبر فضل
زیب سجادۂ پدر گردید
تا کہ آمد نیاز و رہبر فضل
سال تاریخ خواست چوں عارف
ہاتف غیب گفت جوہر فضل
۱۱۲۴ھ


سجادگی کے وقت ہی حضرت تاج العارفین پیر مجیب اللہ قدس سرہ' العزیز نے خواجہ عماد الدین قلندر عرف میاں صاحب قدس سرہ' کے تمام تبرکات سجادہ، تسبیح، پیرہن ، لباس قلندری، عمامہ، پٹکا، مسواک ، قینچی، حضرت سید محمد فاضل قلندر سادھوری قدس سرہ ٗکے تبرکات اور دیگر تمام بزرگان کے تبرکات اور بالخصوص موئے مبارک حضرت سرور کائناتﷺ اور موئے مبارک حضرات حسنین کریمین علیہماالسلام نیز کتب خانہ عمادیہ اپنے تمام مخطوطات کے ساتھ حضرت سجادؔ کو سپرد فرمادیا زیارت موئے مبارک حضور رسول کریم ﷺ حسب معمول قدیم ہر ماہ کی بارہویں کو ہوتی رہی۔ یہ موئے مبارک وہی تھا جو حضرت سجاد کے جد مکرم حضرت سید شاہ برہان الدین قادری کو آبائی طور پر سلسلہ بہ سلسلہ حضرت شاہ سعد اللہ اور پھر حضرت امیر عطاء اللہ پھلواروی سے پہنچا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب خانقاہ عمادیہ پھلواری شریف سے منگل تالاب، پٹنہ سیٹی منتقل ہوگئی تب بھی زیارت تبرکات کا یہ سلسلہ بغیر انقطاع جاری رہا اور آج بھی جاری ہے۔ ع ہنوزاں ابر رحمت در فشانست

سجادگان عمادیہ کی سلسلہ بہ سلسلہ روایت کے مطابق ۱۲ سال کی عمر میں حضرت سجادؔ قدس سرہٗ کی تعلیم ظاہری کی تکمیل ہو چکی تھی اور تعلیم باطنی حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعے مکمل ہو چکی تب آپ کی تعلیم معرفت حضرت محبوب سبحانی غوث الاعظم سید شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شروع ہوئی اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے استفادہ کی اجازت بھی مرحمت ہوئی۔ حضرت تاج العارفین پیر مجیب اللہ قدس سرہٗ نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ کے فرمان و الاشان کے مطابق اپنی صاحبزادی سے آپ کا عقد کردیا لیکن کچھ عرصہ بعد زوجہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت تاج العارفین نے اپنی دوسری صاحبزادی کو بھی آپ کی زوجیت میں دے دیا اسی لیے آپ کو تاج العارفین کا "ذی النورین" کہا جاتا ہے۔ اولاد ذکور نہ تھی صرف دو صاحبزادیاں ہوئیں بڑی کی شادی حضرت تاج العارفین کے پوتے حضرت شاہ نور الحق طپاںؔ ابن قطب عالم حضرت سید شاہ عبد الحق قدس سرہٗ سے ہوئی اور چھوٹی صاحبزادی کی شادی مولانا شاہ شمس الدین ابو الفرح رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی۔
ایک بار پھلواری شریف پر ڈاکوؤں کے حملے کا خوف تھا لوگ بستی چھوڑ کر دوسری طرف چلے گئے تھے حضرت تاج العارفین بھی اپنے اہل خانہ اور متعلقین کو لے کر پٹنہ سیٹی (عظیم آباد) چلے آئے۔ یہیں حضرت سجادؔ کو تیز بخار آیا اور اطبائے وقت نے زندگی سے نا امیدی ظاہر کردی۔ حضرت تاج العارفین سے حضرت طپاںؔ نے روایت کی ہے کہ جب شمس العارفین حضرت سجادؔ کی وفات کا وقت قریب ہوا اور ملک الموت حاضر ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ پہلے اپنے پیر و مرشد سے رخصت کی اجازت لے لوں آپ نے تین بار اشاد فرمایا تاج العارفین دوسری طرف دالان میں تھے آپ کی آواز سنی اور ایک بہت ہی بلند آہ کھینچی اور فرمایا کہ پیر و مرشد حضرت خواجہ عماد الدین قلندر کی جدائی کا زخم تازہ ہو گیا۔ ٹھیک اسی وقت شب دو شنبہ کی نصف رات گزار کر ۳؍ذیقعدہ ۱۱۷۳ھ حضرت سجادؔ نے حکم الہٰی پر لبیک کہا اور ان دار فانی سے دار البقا کی طرف کوچ فرماگئے۔ آپ کا جنازہ پٹنہ سیٹی سے پھلواری شریف پاپیادہ لے جایا گیا اور لعل میاں کی درگاہ حضرت خواجہ عمادالدین قلندر قدس سرہ' کے پائینتی چبوترے پر مدفون ہیں۔ حضرت تاج العارفین اس حادثے کے بعد سے کبھی دوبارہ پٹنہ سیٹی (عظیم آباد) تشریف نہیں لائے اور ہمیشہ غمزدہ رہے۔ یہ روایت آج تک چلی آرہی ہے کہ سجادگان عمادیہ کا جنازہ پٹنہ سیٹی سے پھلواری شریف پا پیادہ جاتا ہے اور یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ اوّل سجادہ نشیں سے لے کر اب تک کسی نے پھلواری شریف میں انتقال نہیں فرمایا حتیٰ کہ شمس العارفین پھلواری شریف میں رہتے ہوئے بھی انتقال سے پہلے پٹنہ سیٹی آگئے تھے اور خانقاہ عمادیہ جب پھلواری شریف سے منتقل بھی ہوئی تو پٹنہ سیٹی ہی میں۔

تذکرۃ الکرام" میں شیخ العالمین حضرت شاہ نعمت اللہ قدس سرہٗ اور محی السالکین حضرت نور الحق طپاں قدس سرہٗ کی روایتوں سے آپ کی بہت ساری کرامتیں منقول ہیں اور یہ کہ رئیس الابدال آپ کی استقامت کے لئے تشریف لاتے، ترقی مقامات کے لیے حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت محبوب سبحانی سید نا شیخ عبد القادی جیلانی قدس سرہٗ اور حضرت بہا ء الدین نقشبند قدس سرہٗ استعانت فرماتے۔ تعلیم باطنی کی تکمیل ہوتے ہی مقام عبد صمدیت میں عروج فرمایا اور انوار صمدیت کی سیر فرماتے ہوئے مقام عبدیت کے انوارکو پایا۔ عبد صمدیت وہ مقام معرفت ہے کہ جہاں فنافی اللہ کی منزل بھی تمام ہوجاتی ہے اور سالک بقا باللہ کے انوار میں اپنے آپ کو غوطہ زن پاتاہے۔ تبھی اسے مقام عبدیت کا پہلا زینہ نظر آتا ہے۔مقام عبدیت کی کے کئی پہلو اور اسرار ہیں، جو صفات باری تعالیٰ کی طرف مضاف ہوتے ہیں جیسے مقام عبد صمدیت اور خالص مقام عبدیت تو انتہائی اعلی مقام ہے یہی وہ مقام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے "اسریٰ بعبدہٖ" میں واضح فرمایاہے اور اپنے محبوب حضرت مصطفی ﷺ کو عبدیت کے اس آخری اور بلند ترین مقام پر فائز فرمایا اور وہاں بالجسم لے جایا گیا، جو عبدیت میں انتہائی مقام جانا جاتا ہے یعنی مقام"قاب قوسین او ادنی" جس مقام کو کوئی دوسرا ہر گز نہیں پاسکتا۔ حضرت سجاد قدس سرہٗ کواس کے بعد براہ راست بارگاہ رسالت سے جب اور جس وقت چاہتے استفاضہ فرماتے اور فرشتگان عرش سے کلام فرماتے تھے۔ اوراد و وظائف جتنے خاندان عماد و مجیب میں سلسلہ عمادیہ سے آئے ہیں ان میں تقریباً تین چوتھائی حصہ آپ کے کشف و الہامات سے ہیں جو براہ راست بارگا ہ رسالت مآب ﷺ اور اولیائے کرام سے حضرت سجادؔ کو حاصل ہوئے۔ اذکار و وظائف اور ادعیہ و تعویذات کی ایک ضخیم جلد اور ایک رسالہ آپ کے دست خاص کا لکھا کتب خانہ عمادیہ ، خانقاہ عمادیہ، منگل تالاب ، پٹنہ سیٹی میں محفوظ ہے۔ حضرت طپاںؔ نے تعویذات و ادعیہ اور بعض وظائف کی مبوّب ترتیب "تبلیغ الحاجات الی مجیب الدعوات" کے نام سے کی ہے، جس میں زیادہ تر حضرت سجاد کے مخطوطات سے لئے گئے ہیں، اور بھی بہت کچھ آپ کے مکاشفات سے سینہ بہ سینہ اس خانوادہ عمادیہ میں چلے آرہے ہیں۔ تمام مشائخ پھلواری حضرت سجادؔ کے وقت سے لے کر اب تک اس بارے میں متفق ہیں کہ آپ پیدائشی ولی اللہ تھے۔ پانچ سال کی عمر سے ہی حضرت حضر علیہ السلام سے روزانہ ملاقات ہوتی اور تعلیم حاصل کر تے تھے۔ بہت کم عمری میں ہی آپ سلوکِ معرفت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گئے تھے اور پھر رفتہ رفتہ اس میں ترقی فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ پردہ فرمانے وقت بقول حضرت محی السالکین نور الحق طپاںؔ اور شیخ العالمین، آپ غوث عالم تھے۔ اس کے علاوہ آپ کو کچھ مخصوص اختیارات بارگاہ محبوب سبحانی سے عطا ہوئے تھے جسے اس سے پہلے حضرت غوث اعظم نے وہ مقام و اختیار کسی دوسرے کو نہیں عطا فرمایا تھا۔

آپ کے ہم عصر علما ومشائخ بھی آپ کے بلند رتبوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ کم عمری کے زمانے سے ہی بڑے بڑے ہم عصر مشائخ و صوفیا آپ کی بہت تعظیم و توقیر کرتے حتیٰ کہ ضعیف العمر مشائخ بھی اس طرح تعظیم کرتے کہ بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا کہ یہ پیر ہوں اور وہ مرید۔ خود حضرت تاج العارفین جو آپ کے پیر و مرشد تھے اس طرح تعظیم فرماتے کہ کبھی حضرت سجاد کے سامنے دوزانو کے علاوہ نہ بیٹھے، جب آپ کم عمر تھے تب بھی تاج العارفین آپ کے سامنے دوزانو بیٹھتے تھے، نام لے کر کبھی نہیں پکارا بلکہ میاں، حق آگاہ اور معرفت آگاہ جیسے الفاظ و جملے استعمال فرماتے۔ جب حضر ت سجادؔ تاج العارفین کے یہاں پہنچ جاتے تو آپ تعظیم و استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اس وقت تک نہ بیٹھتے جب تک کہ حضرت سجادؔ نہ بیٹھ جاتے۔ روزانہ آپ سے ملاقات ضرور فرماتے۔ حضرت سجاد بھی اپنے پیر و مرشد کی اس قدر تعظیم و توقیر فرماتے تھے کہ آپ کبھی کسی کی بیعت نہ لیتے اگر کوئی بیعت ہونے کا خواہش مند آجاتا تو پیر و مرشد کی بارگاہ میں بھیج دیتے تھے۔

جہاں بزرگی اور علومراتب میں آپ اپنے زمانے میں یکتا اور بے مثال نظر آتے ہیں وہیں ادبی دنیا میں بھی آپ بے نام و نشان نہیں رہے ہیں۔ آپ نے فارسی اور اردو دنوں زبانوں میں طبع آزمائی فرمائی اور اپنا سرمایہ چھوڑا، آپ کے اردوکلام کی اہل زبان و ادب کے یہاں کافی اہمیت ہے آپ کا کلام یکجا تو نہیں ملتا ، ہاں! حضرت شاہ نعمت اللہ پھلواروی (۱۱۶۰ھ تا ۱۲۴۵ھ ) نے بزرگوں کے کلام کو ترتیب دیا ہے ، جس میں آپ کا کلام بھی شامل ہے۔ آپ کے کلام کے چند نمونے یہ ہیں:

 

دم بھی گھوٹے ہے غم ستی نکلے نہیں ہے جان بھی
ہائے زمین سخت ہے، دور ہے آسمان بھی
سجدہ گذارِ آستاں تیرا غلام نقشبند

رحم کا خواستگار ہے، رحم ہے تیری شان بھی
بیداد کون جانے ہے، بیداد کی تئیں
صیاد مت کہو مرے صیّاد کے تئیں طوفانِ اشک اور جوانی کی ناؤ، ہائے!


سمجھادو ٹک کوئی مرے سجادؔ کے تئیں
جب موسم گل آن کے تائید کرے ہے
تب جوش جنوں عقل کی تردید کرے ہے
سجادؔ ، جو سمجھا ہے خود اپنے تئیں موجود

وہ فہم نہیں، معنئ توحید کرے ہے
ہجر کی رات بہت بھاری ہے
عشق کی بات بہت بھاری ہے
خوگرِ غم کے تئیں بھی سجادؔ
غم مافات بہت بھاری ہے

جو گھڑی جاوے گذردور مے و جام کے بیچ
بہ از عمر خضر گردش ایام کے بیچ
جب ستی اوس بتِ خود کا ستی کام پڑا


جی نہیں بہلے ہے سجادؔ کسو کام کے بیچ پروفیسر اختر اورینوی نے حضرت سجادؔ کی بارہ مکمل غزلیں رسالہ معاصر، پٹنہ ماہ نومبر ۱۹۴۱ء کے حوالے سے درج کی ہیں اور اس کے علاوہ عزیز الدین احمد بلخی زارؔ عظیم آبادی کی مؤلفہ تاریخِ شعرائے بہار کے حوالے سے دو شعر نقل کیے ہیں جو حسب ذیل ہیں :

 

صدقے ترے ساقیا آج لگا دے سبیل
واردِ میخانہ ہے زاہدِ پرہیزگار
آپ الگ ہیں خفا دل ہے جدا بے کہا
آپ ہی ٹک سونچئے کیا کرے سجادؔ


'' شاعر'' کے قومی یکجہتی نمبر ۱۹۷۴ء میں سجادؔ بہاری کے نام سے آپ کا ذکر آیا ہے۔ رسالہ نگار لکھنؤ، ماہ جنوری ۱۹۳۵ء میں بھی آپ کی ایک غزل شائع ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں آپ کے حالات و کلام مختلف تذکروں، رسالوں اور کتابوں میں بطور حوالہ موجود ہیں، سب سے پہلے حضرت نور الحق طپاںؔ اور شاہ نعمت اللہ رحمہمااللہ نے سجاد کے کلا م کو قدیم مسودات سے نقل کیا تھا۔ '' اردو اور قومی ایکتا'' میں حضر ت سجادؔ اور میر کا موازنہ اس طرح کی گیا ہے:
"حضرت خواجہ عمادالدین قلندر عمادؔ پھلواروی کے صاحبزادے اور تاج العارفین حضرت پیر مجیب اللہ ؒ کے داماد تھے۔ دہلی میں مرزا مظہر جانجاناں کا یہی زمانہ تھا۔ جب حضرت سجاد کی عمر ۲۳ برس کی تھی تو اکبر آباد میں میر تقی میرؔ (۱۷۶۵ء) پیدا ہو ئے۔ اور جب میر کی عمر ۳۵ برس کی ہوئی تو حضرت سجاد انتقال فرماگئے۔ حضرت سجاد کی غزلوں میں زبان کی نرمی اور جذبات و احساسات کی گرمی کا ایسا بھر پور چاؤ ہے کہ میر تقی میرؔ جیسے شہنشاہ سخن نے حضرت سجادؔ کی غزلوں کو سامنے رکھ کر اپنی وہ مشہور غزل لکھی جس کا مقطع ہے


میر ؔ کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو تم ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا


میر ؔ کی پوری غزل، حضرت سجادؔ کی مندرجہ ذیل غزل کو سامنے رکھ کر پڑھئیے تو آپ کو بیّن اندازہ ہوجائے گا کہ میرؔ نے اپنی غزل حضرت سجادؔ کے تتبع میں کہی ہے:



بھٹی کو چلا کیا ہوتے سحر پوچھو تو کوئی سجاد ستی
تھا رات تلک تو کام اس کو اشغال ستی اوراد ستی
جو دیکھ کے ہم کو ہاتھ مَلے، پچھتاوے اور افسوس کرے
بتلادو کوئی کریں شکوہ کیا ایسے ستم ایجاد ستی
جب آگ دَھندھکتی ہو اس پر مت چھینٹو تیل خداراتم
کیا دل کی خوشی کو پوچھو ہواے یارو اک ناشاد ستی
ٹھانا تو بہت، اب جاویں گے ہر گزنہ کسوکے کو چے میں
ہر بار مگر مجبور رہے ہم اپنے دل ناشاد ستی
توڑاہے وہ کب کا تقویٰ کو بھٹی میں تو اس کی گذرے ہے
سجادہ و مسجد کی بابت پوچھو کچھ مت سجاد ستی



حضرت سجاد کی غزل کا نکھار دیکھئیے اور قربان جائیے کہ ان صوفیائے کرام نے اپنے دل کالہو جلا جلا کر کس طرح چراغِ زبان و ادب کو روشنی بخشی ہے۔'' حضرت سجادؔ کی شاگردوں کی کوئی تفصیل نہیں ملتی سوائے اس کہ حضرت نور الحق طپاں ہی کی وہ واحد شخصیت ہے جسے حضرت سجاد کی شاگردی کا شرف حاصل ہے اور تحقیقات کے

مطابق راسخ عظیم آبادی نے حضرت طپاں سے اصلاح سخن لی ہے۔ حضرت سجادؔ اُس خانوادے کی ایک اہم کڑی ہیں جس نے بہار میں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بڑی گرانقدرخدمات انجام دیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بہا کے اردوزبان و ادب کے افق سے اگر خانوادۂ امیر عطاء اللہ پھلواروی کے ذکر کو ہٹا دیا جائے تو اردو زبان و ادب کی تاریخ دھندلی پڑجائے گی۔ حضرت محبوب رب العالمین خواجہ عمادالدین قلندر عمادؔ پھلواروی عرف میاں صاحب کے صاحبزادے اور خانقاہ عمادیہ قلندریہ کے پہلے سجادہ نشیں حضرت شمس العارفین سید شاہ غلام نقشبند سجادؔ قدس سرہٗ العزیز کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ آپ کے تفصیلی حالات یا حوالوں کے لیے جن کتابوں ، تذکروں اور رسالوں کا مطالعہ ضروری ہوگا ان میں سے چند یہ ہیں:

ا۔ '' انوار الطریقتہ فی اظہار الحقیقتہ'' از محی السالکین نور الحق طپاںؔ ، قلمی ، کتب خانہ عمادیہ، پٹنہ سیٹی
۲۔ '' تذکرہ الکرام'': شاہ ابوالحیات پھلواروی
۳۔ '' تذکرۃ الصالحین'': مختار حسیب اللہ عظیم آبادی، ص ۱۱۹ تا
۴۔ رسالہ '' معارف'' ، پھلواری ماہ صفر ۱۳۳۲ھ ۔
۵۔ '' انوار الازکیا'' از مختار حسیب اللہ ، قلمی، کتب خانہ عمادیہ، پٹنہ سیٹی ۔
۶۔ ماہنامہ '' صنم'' بہار نمبر ۱۹۵۹ء۔
۷۔ رسالہ '' بہارستان'' شاہ حسین میاں پھلواروی۱۹۳۱ء۔
۸۔ '' تذکر ہ مسلم شعرائے بہار'' جلد ۲ ص ۱۰۱ تا ۱۰۴۔
۹۔ '' تاریخ شعرائے بہار'' از عزیزالدین احمد بلخی زارؔ ص ۲۲۔
۱۰۔ رسالہ'' معاصر''، پٹنہ۔
۱۱۔ رسالہ'' نگار'' لکھنؤم ۱۹۳۵ء۔
۱۲۔ ''بہار اور اردو شاعری'' از پر وفیسر معین الدین دردائی۔
۱۳۔ رسالہ '' ندیم'' بہار نمبر ۱۱۳۵ء۔
۱۴۔ '' بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا'' از اختر اورینوی، ص ۱۶۵ تا ۱۷۶۔
۱۵۔ '' اعیان وطن'' از حکیم شاہ محمد شعیب پھلواروی ، ص ۱۲۱۔۱۲۲۔
۱۶۔'' نفحات العنبر یۃ فی انفاس قلندریہ'' ، کاکوری۔
۱۷۔ '' انوار الاولیا'' مرتبہ نعمت اللہ ۲۰۰۰ء کراچی۔
ان کے علاوہ دیگر کتب و رسائل میں بھی آپ کا تذکرہ موجود ہے۔


از: سید شاہ مصباح الحق عمادی، مطبوعہ گلدستہ مشاعرہ نمبر ۲ منعقد ہ خانقاہ عمادیہ ، پٹنہ