۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

فریدملت قطب عالم حضرت سید شاہ فرید الحق عمادی علیہ الرحمہ

بہار کی مشہور خانقاہ، خانقاہ عمادیہ (منگل تلاب، پٹنہ سیٹی، پٹنہ) کے نویں سجادہ نشیں حضرت مولاناالحاج قاری سید شاہ فرید الحق عمادی علیہ رحمتہ و الرضوان تھے۔ آپ متبحر عالم ، صوفی با صفا اور نہایت متحرک و فعّال مبلغ و داعی اسلام تھے۔ آپ کے مریدین و معتقدین ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ نہ صرف ہندستان بلکہ بیرون ہندبھی آپ کے رشد و ارشاد سے محروم نہ رہا۔ خوب خوب دعوت و تبلیغ ، ارشاد و ترشید فرمائی اور طالبان خدا کی دستگیری فرماتے ہوئے انہیں تزکیہ، تصفیہ و تجلیہ کی راہ میں لگا کر کامران فرمایا۔

یکم جمادی الاول ۱۳۴۷ھ بمطابق ۱۶؍اکتوبر ۱۹۲۸ء کو آپ خانقاہ عمادیہ میں متولد ہوئے ۔ تاریخی نام محمد نظام الحق اور فرید الحق نام رکھا گیا اور بلاشبہ خدانے آپ کو اسم بامسمّی فرمایا کہ آپ اپنی ذات میں فرد تھے۔ آپ کی روش انوکھی بلکہ زمانہ سازتھی۔آپ کی شخصیت گوناگوں صفات اور مختلف جہات کی حامل تھی خدانے آپ کو خانقاہ میں پیدا فرما کر اپنے دین کی خدمت کے لیے منتخب کر لیا۔

چار سال کی عمر میں دادا حضرت مولانا حافظ سید شاہ حبیب الحق قدس سرہٗ نے بسم اللہ خوانی کرائی ۔ ابتدائی تعلیم دادا سے حاصل کی۔ عربی وفارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے خالو حضرت مولانا شاہ عبد المنان گیاوی علیہ الرحمتۃ سے، متوسطات والدگرامی اور ملک العلما حضرت مولانا ظفرالدین قادری عظیم آبادی سے پڑھیں، دارالعلوم منظر اسلام ، بریلی شریف سے تکمیل فرما کر ۱۹۵۴ء میں سند فضیلت سے نوازے گئے ۔ قرأت و تجوید قاری سردار محمد خاں بیناذہن سے سیکھی۔ علوم متداولہ اسلامیہ کے علاوہ علوم فلکیات، ریاضی و علم جفر و غیرہ جناب امیرالدین صاحب وکیل سے حاصل فرمائے۔ علم رمل و علم تکسیر وعلم نجوم میں مہارت تھی ۔ ہومیوپیتھک میڈیکل کالج (پٹنہ) سے ایچ۔ایم۔ڈی۔، بی۔ایچ۔آئی کی سند حاصل کی ۔ نیز بمبئی سے عالم و منشی فاضل کیا ۔ تصوف و سلوک کی تعلیم والد گرامی سید شاہ صبیح ا لحق عمادی علیہ الرحمۃ و الرضوان سے حاصل فرمائی اور آپ سے بیعت ہو کر سلسلہ قلندریہ اور قادریہ قُمیصیہ کی تعلیم حاصل فرمائی اور تمام خاندانی سلاسل کی اجازت و خلافت سے نوازے گئے۔ آپ کو آپ کے والد نے اپنا مجاز کل و خلیفہ مطلق بنایا ۔

۱۹۵۶ء میں آپ کی شادی ہوئی ۔ ۱۹۷۵ء میں اپنے والد کے انتقال کے بعد آپ سجادۂ عمادیہ پر جلوہ افروز ہوئے۔ زمام ارشاد سنبھالی اور تزکیہ و تصفیہ خلائق میں مشغول ہوئے۔ سجادگی سے قبل محمڈن اینگلو عربک ہائی اسکول، پٹنہ سیٹی میں عربی مدرس اور ہیڈمولوی تھے۔ مگر خانقاہ نشینی اور دلق پوشی ہر ابوالہوس کا کا م نہیں ۔ یہ شہادت گہہ الفت ہے جس میں قدم رکھنے والا خون جگر پیتا ہے۔ آپ نے سجادگی کے ساتھ ہی نوکری سے دستبردار ہو کر فقر و توکل اختیار فرمایا اور سلوک الی اللہ اور خدمت خلق و دعوت الی الحق میں مشغول ہو گئے۔

آپ نے اپنے ۲۶ سالہ دور سجادگی میں بہت سے کارہا ئے نمایاں و خدمات جلیلہ انجام دیں ۔ جس وقت سجادگی عماد ؔ علیہ الرحمتہ سے شرفیاب ہوئے اس وقت شہر پٹنہ میں عموماً اور پٹنہ سیٹی میں خصوصاً دینی حالت بڑی خراب تھی۔ علماء کی بہت کمی تھی حتٰی کہ بعض اوقات نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بھی کوئی نہیں ملتا۔ دینی مزاج بہت خراب ہو چکا تھا۔ شعائر اسلام کی تضحیک، علماء واولیا کی توہین، عظمت رسول کا انکار ایک عام روش تھی۔ آپ نے کمر ہمت باندھی اور ۱۹۷۹ء میں اپنی خانقاہ میں ایک دینی مدرسہ بنام دار العلوم عمادیہ کی نشاۃ ثانیہ کی  جو محبوب رب العالمین خواجہ عمادالدین قلندر قدس سرہٗ کے  عہد سے  قایم تھا اور  تقریباً ۲۴ سالوں سے سلسلۂ درس تدریس بند تھا۔ جبکہ اس نہایت نامساعد حالات میں آپ تنہا تھے، مگر آپ کے پائے ثبات و عزم میں ذرالغزش نہ آئی ۔آپ نے صرف مدرسہ ہی قائم نہیں کیا بلکہ اسے بحسن و خوبی چلایا بھی۔ اب اس میں فضیلت تک کی تعلیم ہوا کرتی ہے۔با صلاحیت علما و حفاظ کی کافی تعداد فارغ التحصیل ہو کر نکل چکی ہے اور اپنے اپنے علاقہ میں دعوت و تبلیغ میں مشغول ہے۔

آپ نے تحریری شکل میں کافی کتابیں چھوڑی ہیں۔ ا۔ حالات فخرالزماں شہاب الدین پیر جگجوت مع حالات مخدوم آدم صوفی، ۲۔سفر آخرت، ۳۔ میلادرسول پر اعتراض اور اس کا جواب، ۴۔ کب کھڑے ہوں نماز میں، ۵۔ عربی کی پہلی، ۶۔حزب البحر کلاں (ترتیب)۔ اس کے علاوہ شعر و نظم میں۷۔ تنویر حرم،۸۔ مناقبات اولیاواصفیا، ۹۔مثنوی گوہر کمال۔ (یہ تمام کتابیں ادارۂ رشیدیہ کے ذریعہ طبع ہو چکی ہیں)

آپ کو تبلیغ و اشاعت کے لیے طباعت و اشاعت کی اہمیت کا بھی احساس تھا۔ اس احساس و ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے آپ نے ایک اشاعتی ادارہ "ادارۂ رشیدیہ" کے نام سے قائم کیا جس میں اپنی تصنیفات و تالیفات کے علاوہ دیگر کتابوں کی بھی اشاعت عمل میں آئی۔

آپ کو شعر وشاعری کا ذوق خاندانی ورثہ میں ملا تھا۔ خاندان میں ہمہ وقت شعر و ادب کاچرچا رہتا ہے، اس لیے طبیعت خودبخود موزونیت کی طرف راغب تھی مگر فکر کی بلندی اور گہرائی کے اظہار بیان کے نکھار کے لئے مبارک حسین مبارک ؔ عظیم آبادی سے اصلاح لی پھر عبد الحمید حمید شاگرد شاد عظیمؔ آبادی سے اصلاح لی ۔ امیر خسرو کو حضرت نظام الدین اولیا نے فرمایا تھا کی عاشقانہ شاعری کرو نگاہ حقیقت میں نے دیکھا کہ الفاظ ظاہر تو مجاز ہوتا ہے مگر حقیقت نے اپنا رخ زیبا دکھایا تو وہ عشق الہٰی کے شہسوار بن کر "سینہ بریاں" کے نام سے مشہور ہوئے ۔ مشہور مقولہ "المجاز قنطرۃ الحقیقۃ" کے تحت ابتدائی شاعری محبوب مجازی کے حسن و عشق کا بھی خوب چرچا رہا اور عمدگی، حیرت و ندرت لئے ہوئے شاعری ہوئی مگر سجادہ نشینی کے بعد آپ کا رنگ یک لخت بدل گیا خود فرماتے ہیں

"بدلی ہے سب ادافریدؔ تری جب سے رنگ حبیبؑ آیا ہے"

آپ کی شاعری نے ایک سمت چن لی جس کا رستہ حبیب پاکﷺ کے آستانہ تک لے جاتا ہے اور نعت کہنا شروع فرمایا۔ مشکل سے مشکل ترزمیں بھی شعر کہے اور خوب کہے۔آپ نے شاعری کو ایک انوکھا مقصد بخشا کہ دل میں گدازگی اور نرمی پیدا کی جائے جس کے بغیر انسان انسان ہی نہیں رہتا ہے مومن تو دور کی بات ہے۔ اس کے دل کی سختی کالحجارۃ اواشدقسوۃ کا مصداق ہو جاتی ہے جس کا انجام فاتقو النارالتی وقودھاالناس و الحجارۃ ہے۔ صراط مستقیم سے بھٹکے ہوؤں کو واپس حضورﷺ کے دربار تک بلاتے رہے اور اپنا تعلق اس آقا سے خوب استواررکھا اور بر ملااظہار فرماتے ؂

یہ بھٹک رہا تھا اِدھر اُدھر، ملی راہ اس کو بھی خوب تر
مرا خامہ وصف نبی کرے مری شاعری کا نصیب ہے

اور فرمایا ؂

تیرے درپہ جو بھی پہنچ گیا وہ امیر بزم جہاں بنا
واقعتاً خدا نے آپ کو امیر بزم جہاں بنا دیا۔


آپ کا مزاج بڑا سادہ اور نرم تھا بڑے روادار تھے مگر حق گوئی میں بے مثال تھے غلط بات، غلط کار کے سامنے کہتے نہ کہ پیٹھ پیچھے۔ فاروقی مزاج تھا ۔ لیکن عام طور پر صوفیانہ روش رہتی تھی جس سے ملتے کھلے دل سے۔ کسی سے اگر نا گواری ہوتی تو برملااس کا اظہار کر دیتے کہ تمہارا فلاں فعل غلط ہے۔

۱۷؍مارچ ۲۰۰۱ء بروز سنیچر پونے آٹھ بجے شب میں دورہ قلب کے سبب آپ کا اچانک انتقال ہو گیا۔ دوسرے دن ۱۸؍مارچ کو لعل میاں درگاہ، پھلواری شریف، پٹنہ میں آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مولانا سید شاہ مصباح الحق عمادی نے پڑھائی۔ ہزاروں کا مجمع تھا۔ اور رفیق اعلیٰ کی طرف جانے والا اپنی آخری آرامگاہ کی طرف اپنے جانثاروں کے کاندھوں پر سوار چلا جارہا تھا۔ منادی کان میں سر گوشی کر رہا تھا ؂

سلطان خوباں می رود گردش ہجوم عاشقاں
چابک سواراں یک طرف مسکیں گدایاں یک طرف


اور اب وہ آخری آرامگاہ میں نم کنومۃ العروس کے لاہوتی نغمہ سے سرشارہوں گے ؂

نہ چھیڑو اِسے وہ برا مان لیں گے
فریدؔ حزیں ہے گدائے محمد


(سید محمد صباح الدین منعمی، مطبوعہ فریدِ ملت: فرید عصر)