۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

انیس المساکین حضرت مولانا سید شاہ صبیح الحق عمادی رحمۃ اللہ علیہ

آپ ۸؍ رمضان المبارک ۱۳۱۹ھ مطابق ۱۹۰۱ء کو پیدا ہوئے ۔ تاریخی نام'چراغ عماد' تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد سے حاصل کی ۔ اور ان کے دست حق پرست پر ۱۲ سال کی عمر میں بیعت کی۔ درسیات کی ابتدائی کتابیں اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں۔ چند سال مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں زیر تعلیم رہے۔ پھر مدرسہ سبحانیہ الہ آباد چلے گئے۔ وہاں مولانا نعیم الہ آبادی آپ کے ہم سبق تھے ۔ ترک موالات کی تحریک کے زمانے میں آپ کانپور چلے گئے اور مدرسہ الہیات میں مولانا ازاد سبحانی کی زیر نگرانی تعلیم مکمل کی۔ علوم باطنی کی تکمیل اپنے والد کی سرپرستی میں کی۔ علوم ظاہری اور باطنی میں درجہ کمال کو پہنچے۔ عربی فارسی کی بے پناہ صلاحیت کے علاوہ جفر ، رمل اور علم تکسیر میں بھی طبعی ذہانت اور مطالعے سے آپ کو دسترس حاصل ہوئی۔

خطابت کی اعلیٰ صلاحیت تھی۔ تقریروں میں عربی ، فارسی اور اردو اشعار کا بر محل استعمال کرتے اور لوگ گھنٹوں محویت کے عالم میں آپ کو سنتے۔ طبیعت میں بزلہ سنجی تھی اور تقریر کے درمیان موقع کے مناسبت سے لطیفے بھی بیان کرتے تھے۔خانقاہ میں تفسیر قرآن کا سلسلہ قبل سے جاری تھا۔ آپ نے درس حدیث، مثنوی مولانا روم اور مخدوم شرف الدین یحیٰی منیری ؒ کے مکتوبات صدی کا ترجمہ و تشریح کا بھی سلسلہ شروع کیا۔

آپ صلح جو اور منکسر المزاج تھے۔ اتحاد بین المسلمین پر زوردیتے تھے۔ آپ"بزم صوفیائے بہار" کے بانی رکن تھے اور "متحدہ سیرت کمیٹی" کے روح رواں تھے۔

جس کے جلسے میں ہر مکتبہ فکر کے علماء شریک ہوتے تھے۔ اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کی اختلافی مسائل بیان نہ کئے جائیں۔ امیر جماعت اہلحدیث حضرت مولانا عبد الخبیرؒ سے آپ کے گہرے مراسم تھے۔

سید رضی الدین احمد مرحوم ممبر یونیورسٹی بہار نے حضرت کے ذاتی کردار کی ان الفاظ میں بلکل صحیح تصویر کشی کی ہے۔

"ان کے فکر کی بلندی، طبیعت کی خودداری، بے لوثی اور گہری شرافت ان کے صحبت نشیں کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی۔ ناآسودگی کرب نے متوازن زندگی کو کبھی متزلزل ہونے نہیں دیا۔ پاس شریعت اور خشک علم سے بھی قلندرانہ مزاج کبھی مجروح نہیں ہوسکا۔ متانت و بذلہ سخی کا حسین امتزاج ان کی شخصیت میں تھا۔ وقت کے تقاضوں سے وہ ایسے باخبر رہتے جس کی کوئی دسری مثال خانقاہوں یا مدرسوں میں نہیں ملتی۔ دل ایسا دردمند پایا تھا کی قومی انحاطاط یا سماجی انتشار پر گفتگو کے دوران آنکھیں نم ہوجاتیں" صفحہ۔۶

سجادہ نشینی سے پہلے شاعری کرتے تھے ۔ حضرت علامہ تمنا عمادی سے تلمذ حاصل تھا ۔ کلام کا انتخاب " نقوش صبیح" میں شامل ہے۔ اگست ۱۹۷۴ء میں پوسٹریٹ گلینڈ کے مرض میں مبتلا ہو کر جمعہ ۲۴؍محرم الحرام ۱۳۹۵ھ مطابق ۷ فروری ۱۹۷۵ء تقریباً ڈیڑھ بجے آپ نے داعی اجل کو لبیک کیا۔ دوسرے دن خانقاہ سے ملحق اردو لائبریری کے میدان میں آپ کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا حکیم سید شاہ حسین الحق ؒنے نماز جنازہ پڑھائی۔ دسری نماز انجمن اسلامیہ ، تیسری نماز جنکشن اور چوتھی نماز حضرت لعل میاں کی درگاہ پھلواری میں مولانا سید شاہ فریدالحق عمادی مدظلہ کی امامت میں ہوئی ۔ حسب روایت مرید اور متوسلین میت کو اپنے کاندھوں پر پٹنہ سیٹی سے پھلواری شریف لے گئے ۔ ہزاروں لوگ میت کے ساتھ جلوس میں شامل تھے۔ سڑکوں پر سکھ اور ہندو ہاتھ جوڑے کھڑے سلام رخصت پیش کر رہے تھے۔ تقریباً ساڑھے چار بجے شام اپنے والد کی پائیتی میں سپردخاک کئے گئے۔

آپ کی شادی آبگلہ ،گیا میں حضرت سید شاہ مظاہرامام کی بڑی صاحبزادی سے ہوئی تھی جن سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑے صاحبزادے شاہ فرید الحق عمادی علیہ الرحمتہ کے علاوہ سید شاہ امین الحق عمادی رانچی میں مقیم تھے۔ آپ رانچی یونیورسٹی میں ملازم تھے۔ چھوٹے صاحبزادے سید شاہ متین الحق عمادی محمڈن اینگلو عربک اسکول پٹنہ سیٹی سے ریٹائرہوئے۔ خوش گو شاعر ہیں۔عظیم آباد کے موجودہ ممتاز شاعروں میں شمار ہے۔ آپ نے "نقوش صبیح" مرتب کر نے کے علاوہ حضرت مولانا حافظ شاہ ظہور الحق ظہورؒ کے مرثیوں کو"مراثی ظہور" کے نام سے مرتب کیا ہے۔

(انوار الاولیا مؤلفہ مولوی حسیب اللہ مختار، مرتب سید نعمت اللہ، مطبوعہ بساط ادب کراچ)ا