۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

منھاج السالکین حضرت مولانا سید شاہ نصیر الحق عمادی رحمۃ اللہ علیہ

پیدائش آپ کی بتاریخ سیوم جمادی الثانی بروز یک شنبہ ۱۲۱۹ھ وقت چاشت بمقام قصبہ ناجیہ پھلواری ہوئی۔ آپ کا تاریخی نام بیدار بخت ہے اور کنیت ابوالمکارم۔ نام نصیرالحق ہے۔ آپ مولانا ظہور الحق غوث الدہر علیہ الرحمتہ کے بڑے صاحبزاے ہیں۔ جب چار برس کے ہوئے تو حضرت محی السالکین قطب زماں حضرت شاہ محمد نور الحق ابدال جد بزرگوار نے مکتب پڑھایا۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ جب میں پانچ برس کا تھا تو حضرت پیر دستگیر سر آمد اولیاء عصر بے نظیر مولانا ومرشدنا سیدنا والد بزرگوار جناب مولانا حافظ شاہ ظہورالحق غوث الدہر قدس سرہ ٗنے اپنے حلقہ مرید ین میں مجھ کو بٹھاتے تھے اور نور ایمان و ضیائے ایقان وتخم عقل و نکتہ دل امداد فرماتے تھے۔ بعد چندے حلقہ سے اٹھا لیا اور بارہ برس کی عمر تک مرشدان عالی کے حلقے میں شریک نہ ہوا۔ اسی اثناء میں چند کلمات میرے حق میں وارد ہوئے۔ ازآں جملہ یہ کہ بہ زمانہ قیام قصبہ ناجیہ پھلواری کہ اس زمانے میں حضرت استاذی بھائی مولوی محمد صفی صاحب نور اللہ مرقدہ بہ باعث علالت اندرحویلی بارہ دری میں قیام فرماتے تھے کہ حضرت پیر دستگیر بھائی صاحب کے دیکھنے کو تشریف لائے اور میں کھیل میں مشغول تھا۔ حضرت مولانا و مرشدنا نے بھائی صاحب سے فرمایا کہ ہمارا دل یہ چاہتا ہے کہ محمد نصیر الحق کو کل کتابیں دھوکر پلا دوں اور جب ہمارا سن بارہ برس کا ہوا ایک رات بعد نماز مغرب معمولات سے فراغت کر کے مجھ کو اور جناب ماموں سید آل یسین کو حضرت جد امجد قدس سرہ ٗکی خلوت سے طلب فرمایاکہ میں شروع طفلی سے تا سن بلوغ حضرت پیران پیر اعلی جد امجد قدس سرہ ٗکے حضور میں ہمہ دم حاضر رہتا تھااور تربیت و تعلیم از آموختہ و مطالعہ و مذاکرہ فیضیاب ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ جس وقت طلب فرمایا تھا اس وقت بھی مطالعہ میں مصروف تھا۔ جب حضرت مولانا کی صدائے طلب ہم لوگوں کی کان میں پہنچی تو حضرت جد امجد قدس سرہٗ سے عرض کر کے حضرت پیر و مرشد کے حضور میں حاضر ہوئے۔ فرمایا کہ ان حلقہ نشینوں کے ساتھ بیٹھو۔ فوراً حکم بجالایا۔ آخر اس زمانہ سے تاحیات شریف حضرت پیر و دستگیر قدس سرہٗ کے حلقے میں بیٹھا کیا اور ترقیات روزافزوں یوماً فیوماً حاصل ہوتی رہی۔ اور شب دوازدہم ربیع الاول ۱۲۳۲ھ ہماری بیعت بروز عرس حضرت سرور کائنات مظہر موجودات سید الانبیاء و سید الاولیا ﷺ کے حضرت پیر و دستگیر قدس سرہ العزیز نے لیا اور اجازت وخلافت جمیع اعمال و افکار اشغال و اذکار عنایت فرمایا۔ بالآ خر جس سال کہ وفات شریف حضرت پیر دستگیر قدس سرہ ٗکی ہوئی۔ ملاحظات و کلمات چند تربیت و تعلیم میں خصوصاً و عموماًوقوع میں آیا تھا ۔ بعضے ان میں تحریر کیا جاتا ہے۔ ازآں جملہ یہ ہے کہ درسال ۱۲۳۴ھ جاڑے کے دنوں میں فرمایا کہ دنیا میں رہنے کا زمانہ ہمارا بہت کم دکھائی دیتا ہے اور تم کو بے علم پاتا ہوں چاہتا ہوں کہ اس زمانہ چند روزہ میں کسی طور سے تمہاری تعلیم و تربیت درست کردوں۔ چنانچہ فرمایا کہ ہر گاہ زمانہ قلیل ہے۔ علم تصوف کو تمام بازبانی یاد کرادوں اور اس کے بعض خلاصے تمہارے دل میں نقش کردوں تا کہ اس کے اصول سے واقفیت ہو جائے اور اس سے فروغ حاصل کرو کیوں کہ فرصت اس قدر نہیں پاتا ہوں کہ کتاب سامنے رکھ کر فروعاً اور اصولاً تمہاری تربیت کروں لیکن چونکہ حضرت کو کسی طرح کا بخل نہ تھا اس لئے کل حلقہ نشینان بلکہ اغیار بھی شریک استماع مسائل دقیقہ از اصول تصوف آپ کی زبان فیض ترجمان سے فیضیاب ہوئے اور ایک چلہ سے کم یا زیادہ میں تمامی اصول علم تصوف سے ہم لوگوں کو سرفراز فرمایا۔ چنانچہ بفضلہ تعالیٰ باوجود یکہ میں صغیر سن تھا یعنی چودہ یا پندرہ برس کا تھا کہ جملہ مسائل و دقائق بہ برکت فیضان آنجناب قدس مآب گویا نقش کا لحجر ہو گیا اور اس زمانہ تک حرفاً و لفظاً لفظاً اس طور سے یاد ہے اور جملہ مسائل ورموز ونکات و دقائق علم تصوف و سلوک پر فروعاً و اصولاً وفقہ و تفسیر و حدیث و قرآن و دیگر علوم محض برکت فیض صحبت و نگاہ عنایت آں دریائے عرفان تمامہا حاوی ہوں اورجس مجلس و محفل میں مسئلہ از مسائل دقیقہ و نکتہ از نکات باریک و رموز مخفیہ علم تصوف و سلوک یاد یگر علوم دینیہ متداولہ ہمارے کان میں پہنچا۔ ہر گز اس تحقیقات سے زیادہ نہ سنا نہ پایا۔ چنانچہ بروز پنجم از وفات حضرت غوث الدہر قدس سرہ آپ بہ خیال فاتحہ خوانی برمزار بزرگان پھلواری شریف پہنچے تو حضرت شاہ نعمت اللہ قدس سرہٗ سے بھی ملے۔ حضرت ممدوح نے ایسے اکثر نکات تصوف و رموز حقائق و معارف و افکار و اشغال کے متعلق باتیں پوچھیں۔ آپ نے نہایت تفصیل وار جواب ارشاد فرمایا۔ حضرت ممدوح بہت متعجب ہوئے اور بغایت خوشی سے دست شفقت بزرگانہ آپ کے پشت پر رکھا اور مبارکباددے کر فرمایا کہ ہم نہیں سمجھتے تھے کہ تمہارے والد تم کو اس قدر کامل و اکمل بنا کر گئے ہیں۔ ماشاء اللہ چشم بدور تم نے اس کم سنی میں اتنا کمال حاصل کر لیا ہے کہ ہم بڑے آدمیوں میں بھی اتنی بات اب نہیں باتے ہیں۔ خدا تمہاری عمر اور علم و فضل و کسب و ریاضت و زہد و اتقا میں برکت دے اور چشم بد سے بچائے۔

نقل ہے کہ ایک بزرگ شاہ ضیاء الدین صاحب ؒ آپ کے ساتھ محبت و شفقت رکھتے تھے ایک روز بحضور حضرت غوث الدہر قدس سرہٗ انہوں نے نہایت مہربانی سے آپ کو پکارا کہ "بیا اے نصیر الدین چراغ دہلی" حضرت غوث الدہر نے فرمایا کہ یہ کیا فرماتے ہیں کہئے "نصیرالدین چراغ عظیم آباد" ۔ اس کے جواب میں اور فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ خواہد شد۔

بعد وفات غوث الدہر قدس سرہ العزیز کے تحصیل علم ظاہری و تکمیل علم باطنی کی مولانا محمد صفی علیہ الرحمتہ پھلواروی جو شاگرد رشیدو خلیفہ اکمل حضرت غوث الدہر و خلف صدق مولانا شاہ وجیہ اللہؒ کے تھے حاصل کیا۔ اس عرصے میں اتفاقاً بہ ارادہ حج بیت اللہ مولانا محمد حسن علیؒ جو شاگرد مولانا شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے تھے، اس شہر عظیم آباد میں تشریف لائے اور ان سے ملاقت ہوئی۔ آپ نے بھی بہ اجازت اپنی والدہ ماجدہ مولانا حسن علی صاحب ؒ کے ساتھ سفربیت اللہ کا کیا اور ارادہ یہ کیا کہ اس سفر میں حدیث بھی مولانا ممدوح سے پڑھیں۔ لیکن سفر میں پڑھنانہ ہوسکا۔ اس لئے بعد فراغت حج و زیارت بمقام عظیم آباد اپنے مکان پر تشریف لائے۔ بعد ازاں بتاریخ ۱۶؍جمادی الثانی ۱۲۴۷ھ بروز جمعہ اپنے مکان سے تشریف لے گئے اور بتاریخ ۱۱؍رجب بمقام لکھنو بمکان مولوی حسن علی ؒ مقیم ہوئے اور بتاریخ ۱۳؍رجب بروز جمعہ کتاب اصول حدیث تصنیف حافظ ابن حجر و بلوغ المرام  شروع ک اور بعد فراغ علم حدیث و علم ہیت و ہندسہ و حکمت وغیرہ آپ کو بتاریخ ۲۷؍رجب بروز جمعہ وقت صبح ۱۲۴۸ھ سند خاص ہوئی اور اپنے وطن کو واپس تشریف لائے اور جادہ طریقت کو رونق بخشی اور سرگرم رشد و ہدایت خلائق ہوئے۔

درس و تدریس کا بھی مشغلہ رکھتے تھے۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد بہت کثیر ہے۔ چنانچہ ان لوگوں میں سے مولوی ابوالبرکات مرحوم منصف در بھنگہ و مولوی شاہ علیم الدین قدس سرہ العزیز سجادہ نشین فتوحہ( سجادہ نشیں خانقاہ بلخیہ فردوسیہ) مولوی عبد الطیف منصف اورنگ آباد ساکن موضع معافی تحصیل بہار مولوی غلام یحییٰ آروی جن کے شاگرد حضرت شاہ عبد الحق ابن حضرت شاہ علی حبیب سجادہ نشین خانقاہ پھلواری وغیرہ تھے۔ علاوہ ازیں آپ کے چاروں بھائیوں نے بھی اتمام کتب درسیہ آپ ہی سے فرمایا۔ صوبہ بہارکے علاوہ دور دور کے لوگ آپ کی شاگردی کا شرف رکھتے تھے۔ اشاعت سلسلہ بھی آپ سے بہت ہوئی۔ آپ حافظ قران بھی تھے۔ رمضان شریف میں تراویح خود ہی پڑھایا کر تے تھے۔

آپ سے قبل سجادہ حضرت محبوب رب العالمین گویا خانہ بدوشی کی حالت میں تھا یعنی پٹنہ میں ایک مقبرہ، مقبرہ میر اشرف کے نام سے مشہور ہے۔ اس سے متعلق ایک عالی شان مکان تھا جہاں اکثر کشمیری اصحاب رہا کر تے تھے۔ وہ لوگ حضرت غوث الدہر قدس سرہٗ کے مرید ان با اختصاص سے تھے۔ پھلواری سے تشریف لانے کے بعد چنددنوں تک تو مسجد خواجہ عنبر میں آپ کا قیام رہا۔ اس کے بعد آں ارباب کشمیرنے حضرت غوث الدہر کی خدمت میں عرض کی کہ یہاں حضور کو تکلیف ہو گی۔ مقبرہ میر اشرف صاحب کے متعلق جو مکان ہے خدمت میں حاضر ہے وہاں قیام فرمایا جائے چنانچہ حضرت غوث الدہر قدس سرہٗ مع سامان سجادہ وہاں تشریف لائے اور اپنی زندگی تک وہاں جلوہ افروز بزم ہدایت و ارشاد رہے۔ حضرت غوث الدہر کے بعد حضرت شاہ نصیر الحق بھی ابتداء میں وہاں تشریف فرما رہے پھر آپ نے ایک وسیع زمین خانقاہ کے لئے خرید فرمائی اور وہاں مکان و خانقاہ تعمیر فرما کر ۱۲۳۸ھ میں مع سامان سجادہ سریر آرائے ولایت رشد و ارشاد ہوئے۔

یہ تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ حضرت غوث الدہر قدس سرہٗ سے قبل اعراس بزرگاں میں صرف سماع محض کا دستور تھا۔ مزا میر تو مزا میر ہے دف تک کا رواج نہ تھا۔ حضرت غوث الدہر قدس سرہ نے تو اپنے وقت میں سماع محض بھی اٹھا دیا تھا مگر منہاج السالکین حضرت مولانا شاہ محمد نصیر الحق چراغ عظیم آباد قدس سرہ ٗنے سماع مع دف اپنے عہد سجادہ نشینی میں سننا شروع کیا۔ آپ کی یکے بعددیگر تین شادیاں ہوئیں مگر اولاد نرینہ میں کوئی نہ رہا البتہ صاحبزادیاں تھیں جن کی اولاد اس وقت تک بفضلہ تعالیٰ موجود ہے۔ آپ کے خلفاء کی تعداد بھی بہت تھی جن میں تین تو آپ کے برادر تھے اور چوتھے آپ کے ماموں مولوی معنوی سید آل یٰسین قدس سرہ ٗخصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ ان بزرگوں کا تذکرہ بھی تذکرۃ الصالحین میں موجود ہے۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا موقع بوجہ کمی عمر دوسرے قلت اعیان و انصار کے نہ ملا مگر اس پر بھی دو ایک مختصر سے رسالے آپ کے یادگار ہیں۔

نقل ہے کہ جس زمانہ میں حضرت امیر الاولیاء مولانا شاہ علی امیر الحقؒ اپنی نوکری پر تھے تو کسی گاؤں میں بہ ضرورت تشریف لے جانے کا اتفاق ہو جو آپ کی فرودگاہ سے دور تھا وہاں سے آتے وقت رات ہوگئی قدرے ترشح ہونے لگا۔ ایسی حالت میں آپ محض اکیلے ہونے کی وجہ سے مترود ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک روشنی دور سے نمودار ہوئی۔ آپ نے پوچھا کون ہے تو اس شخص نے جس کے ہاتھ میں روشنی تھی جواب دیا کہ ہم ہیں دھوپ چنانچہ اس کے ساتھ اپنی قیام گاہ میں پہنچے اور رات کو سورہے۔ جب صبح ہوئی تو دھوپ کو تلاش کیا وہ نہ ملا تو صبح لوگ وہاں موجود تھے ان لوگوں نے کہا کے آپ تو یہاں اکیلے آئے تھے کوئی بھی آپ کے ساتھ نہ تھا۔ یہ جواب سن کر آپ خاموش ہورہے۔ واضح ہے کہ دھوپ نامی ایک مشعلچی آپ کے یہاں نوکر تھا اس کو آپ نے کہیں کسی کام سے بھیجا تھا اور خود اس گاؤں میں تشریف لے گئے۔ غرض کہ جب حضرت مولانا محمد نصیر الحقؒ نے بیماری کی حالت میں ایک روز حکیم ابوالحسن مرحوم کے بلانے کو فرمایا اور آپ نے (شاہ امیر الحق) بموجب چلنے کا قصد کیا ہے کہ حکیم صاحب پہنچے تب انہوں نے کیا کہ اس وقت ہم مفت پریشان ہوتے۔ مولانا محمد نصیر الحق قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ تم اتنی دور میں پریشان ہو جاتے اور میں جو اتنی مسافت طے کر کے تمہارے پاس گیا اور آیا کہ دیکھو ہمارے پیروں میں اب تک چھالے پڑے ہوئے ہیں۔ کیا پریشان نہیں ہوا۔ اس وقت آپ نہایت حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا مضمون ہے۔ تب حضرت مولانا نے کل قصہ سنایا میں نے دیکھا کہ اس وقت تم بوجہ تنہائی کے نہایت مضطرب ہو میں فوراً پہنچ گیا اور مکان تک پہنچا آیا۔ آپ اپنے وقت کے قطب تھے۔

نقل ہے کہ ایک روز بعد نماز مغرب آپ میر رستم علی کی گلی میں تشریف لے گئے وہاں ایک مجذوب بھی یہ کہتا ہوا چلا کہ چور ہے چور ہے۔ یہاں تک کہ مکان پر پہنچے اور اس کے پاس کھانا بھیجا اس نے نہ کھایا اور برابر یہی کہتا رہا کہ میری چیز دے دو تو کھائیں گے۔ جب دوروز تک اس نے کچھ نہ کھایا تو آپ کی ہمشیرہ صاحبہ نے فرمایا: "میاں آپ نے اس کا کیا لیا ہے دے دیں" تب آپ نے فرمایا کہ بہتر کھانا اس کے واسطے بھجوائیں۔ جب اس کے پاس کھانا آیا تو اس کو کھانے لگا اور ہر نوالے کے ساتھ یہ کہتا تھا کہ ملاملا جب آدھا کھا چکا تو کہنے لگا کہ واہ یہ تو بڑاسخی ہے اپنے پاس سے بھی اس نے ہم کو دیا۔ جب کل کھانا کھا چکا تو وہ چل دیا اور پھر اس کا پتہ نہ لگا کہ کہاں گیا۔ بس ان سب باتوں سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے آپ کیسے کامل تھے۔ اور کیا کیا کمال آپ کا تھا کہ حاضر و غائب کی حالتیں آپ پر منکشف ہو جایا کرتی تھیں۔

نقل ہے کہ جب آپ کی عمر چالیس برس کی ہوئی تو حضرت مولانا سید شاہ علی امیر الحق صاحب قدس سرہ ٗکو بمقام بہارحضرت مخدوم الملک قدس سرہ ٗکے مزار پر بھیجا اور فرمایا کہ جا کر عرض کرنا کہ میں چالیس برس کا ہو چکا اب کیا حکم ہو تا ہے۔ عرض کہ مولانا مذکور مزار پر تشریف لے جا کرسر بہ مراقب ہوئے اور حضرت مخدوم ؒ کو دیکھا کہ وہ فرماتے ہیں کہ چالیسویں برس حضرت رسول اللہ ﷺ نے پیغمبری کا اعلان کیا تھا۔ یہ کیفیت یہاں آکر بیان کی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ یہاں اب تم خانہ داری اور خانقاہ داری کرو۔ ہمارا زمانہ قریب آن پہنچا۔ یہ موقع تمہارے سفر پر رہنے کا نہیں ہے۔ کیونکہ میں یہاں اکیلا ہوں اور سب یہاں اپنی اپنی نوکری پر ہیں۔ چنانچہ اس تاریخ سے مولانا ممدوح مکان پر تشریف رکھنے لگے اور نوکری سے استعفیٰ دے کر خانقاہ داری میں مصروف ہوئے۔ نقل ہے کہ وہ دعا جو اس خانداں میں عشرہ محرم کو پڑھی جاتی ہے جس کی تاثیر یہ ہے کہ برس روز تک خواندہ بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے۔

جس سال آپ وفات پانے والے تھے اس سال محرم میں خود دعا نہیں پڑھی اور فرمایا کہ تم لوگ پڑھو۔ اس وقت مولانا شاہ علی امیر الحق قدس سرہ العزیز نے عرض کی کہ حضور بھی پڑھ لیں آپ نے فرمایا کہ میں جان بوجھ کر دعا کو جھوٹا کیوں بناؤں۔ اس سال میں نہ بچوں گا۔ غرض اسی برس میں آپ نے وفات پائی۔

نقل ہے کہ جب آپ بیمار ہوئے تو مولانا شاہ علی امیر الحق ؒ سے فرمایا کہ بھائی مجھ پر سحر ہو رہا ہے اور سحر سے ہی مروں گا۔ خبردارخبردار کچھ نہ کرنا چناچہ انتقال کے دو روز قبل جادو کی ایک ہانڈی آپ کے قیام گاہ کی طرف آتی دکھائی دی اہل محلہ نے اس حیرت ناک امرکو دیکھااور خانقاہ میں ہجوم ہو گیا جب مولانا علی امیر الحقؒ نے اس ہانڈی کو صحن خلوت کے مشرقی شمالی گو شے میں چھپر کے مقابل قرار گزیں دیکھا تو اس کو لوٹا دینے کا قصد کیا۔ جس پر آپ نے منع کیا اور فرمایاکہ اس سعادت سے مجھ کو محروم نہ کرو اور خود کوٹھری میں چلے گئے۔ اور دروازہ بند کرلیا تھوڑی دیر کے بعد وہ ہانڈی جدھر سے آئی تھی اسی طرف چلی گئی اور آپ نے دروازہ کھول دیا اس کے بعد سے آپ کی حالت دگر گوں ہونے لگی یہاں تک کہ اشارے سے پانی مانگنے لگے اور دوا چمچے سے حلق میں جانے لگی جس وقت آپ انتقال فرما نے والے ہیں اس وقت مولانا ممدوح نے آپ کو گود میں بٹھا کر شوربادیا وہ حلق سے نہ اترا۔ پھرپانی دیا گیا تو وہ بھی نہ اترا اس وقت آپ نے انکھیں کھول کر آسمان کی طرف دیکھا اور ہنس کر فرمایا کہ بسم اللہ میں تو چلنے کو تیار ہوں یہ کہہ کر لا الہ الا اللہ کی ضرب لگائی اور روح پر فتوح نے پرواز کیا۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ کی جو ضرب قلب کی طرف لگائی تو گردن اسی جگہ رہ گئی۔ جب قبر میں رکھے گئے اس وقت خود بخود قبلہ رخ پھر گئے۔ میر رمضان علی صاحب مختار، جناب شاہ وحید الحق صاحب پھلواروی بیان کرتے ہیں کہ جس وقت قبر میں چہرہ اقدس کھولا گیا ہے اس وقت نہایت منور و تاباں دکھائی دیتا تھا۔ آپ کی وفات بتاریخ بست و ہشتم ماہ شوال ۱۲۶۰ھ میں ہوئی۔ مزار شریف پائیں مزار حضرت شاہ غلام نقشبندؒ کے واقع ہے۔

نقل ہے کہ بعد وفات آپ کی دائی نے مولوی نذیر الحق صاحب مد ظلہ العالی برادر زادہ کو کہ ان کاسن دو تین برس کا ہوگا آپ کے مزار پر لے گئیں اور مزار کا بوسہ کرایا جس وقت بو سے کے واسطے ان کو مزار پر جھکا یا وہ ویسے پڑے رہے اور کچھ آواز کڑکڑ کی آنے لگی۔ اس دائی نے سمجھے کہ ٹھیکری چباتے ہیں اس واسطے خفا ہو کر اٹھا لیا تو دیکھا ان کے ہاتھوں میں میٹھی سیو ہے اس کوکھار ہے ہیں۔ وہ حیران ہو کر پوچھنے لگیں کہ یہ کہاں سے لایا اس وقت انہوں نے کہا وہ دادا بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے ہی دیا ہے۔ واضح ہو کہ مولوی نذیر الحق صاحب آپ کو دادا کہا کرتے تھے۔

نقل ہے کہ محمود نامی باشندہ لودی کٹرہ کا کسی ضرورت سے پھلواری جانا ہو ا تو حضرت کے مزار پر فاتحہ کے لئے حاضر ہوئے۔ عین فاتحہ خوانی ان سے کسی آیت قرانی میں کچھ غلطی واقع ہوئی۔ وہیں آواز "ہوں" کی ان کے کان میں آئی وہ نہایت متحیر ہوئے کہ آواز کہاں سے آئی تھی۔ اغل بغل پھر کر دیکھا تو کوئی شخص نظر نہ آیا۔ اس اشتباہ اپنا کان بجنا سمجھ کر پھر فاتحہ میں مصروف ہوئے۔ اس دفعہ بھی وہی آواز آئی۔ پھر ادھر ادھر دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا۔ پھر فاتحا خوانی میں مشغول ہوئے۔ تیسری بار پھر وہی آواز آئی تو آپ سمجھے کہ پیر زندہ بظاہر مردہ لقمہ دیتے ہیں۔ بہ صحت ترتیل قرآن کو پڑھا خوب غور کیا تو اپنی سہو قرآنی سے آگاہ ہوئے۔

(انوار الاولیا مؤلفہ مولوی حسیب اللہ مختار، مرتب سید نعمت اللہ، مطبوعہ بساط ادب کراچی)