۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

غوث الدہر حضرت مولانا سید شاہ ظہورالحق عمادی محدث رحمۃ اللہ علیہ

آپ حضرت شاہ نور الحقؒ کے خلف الصدق تھے۔ ۲۷؍محرم الحرام ۱۱۸۵ھ کو دو شنبہ کے دن چاشت کے وقت رونق افروز عالم حدوث ہوئے۔ آپ نے قرآن شریف از اول تا آخر کمسنی میں اپنے جد اعلیٰ حضرت شاہ مجیب اللہ ؒ سے پڑھا۔ حضرت شاہ مجیب اللہ ؒ آپ کو اس قدر پیارکرتے تھے کی کبھی ایک لمحے کے لئے اپنی نگاہوں سے جدا نہ فرماتے تھے۔ حتی کہ جب آپ چلنے پھرنے لگے تو حضرت تاج العارفین رات کے وقت بھی اپنے ہی ساتھ آپ کو سلانے لگے۔ آپ کے بغیر کبھی کوئی چیز تناول نہ فرماتے تھے۔ حضرت شاہ مجیب اللہ ؒ کی وفات کے چند ماہ قبل کا واقعہ جناب مولانا شاہ محمد سلیمان پھلواروی نے اپنے بڑے ماموں مولوی شاہ نعمت مجیبؒ کی روایت سے بیان فرمایا کہ حضرت شاہ مجیب اللہ ؒ اس وقت بوجہ کبر سنی کے اس قدر مجہول ہوگئے تھے کہ بغیر کسی مدد کے بدقت کھڑے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت شاہ مجیب اللہؒ تنہا بیٹھے ہوئے تھے اور شاہ ظہورالحق جو اس وقت کل چھ برس کے تھے چند قدم اگے کھڑے تھے کہ حضرت شاہ مجیب اللہؒ نے اٹھنے کا قصد کیا مگر چونکہ اس وقت کوئی ایسا شخص نہ تھا کہ اس سے مدد کے لئے فرماتے اس لئے بدقت اٹھنے لگے یہ دیکھ کر فوراً حضرت ظہورالحق نے دوڑ کر حضرت شاہ مجیب اللہ ؒ کے بغل میں ہاتھ دے کر مدد کرنا چاہی۔ شاہ مجیب اللہ ؒ کو آپ کی اس سراپا سعادت اور بھولے پن پر بہت ہنسی آئی۔ کچھ لوگ جواسی مکان میں دسری طرف تھے ہنسی کی آواز سن کر دوڑے ہوئے آئے۔ حضرت شاہ مجیب اللہؒ نے پورا واقعہ بیان فرمادیا اور حضرت ظہورالحق کو گلے لگا کر اور لپٹا کر خوب پیار کیا اور بہت دعائیں دیں اور دیر تک بارگاہ صمدیت میں ہاتھ اٹھا کر آپ کے لئے دعائیں مانگتے رہے۔

آپ نے درسیات کی ابتدائی کتابوں سے لے کر متوسطات تک اپنے والد بزرگوار حضرت محی السالکین مولانا محمد نور الحق ؒ سے پڑھیں۔ بقیہ کتابیں ملا جلال الدین ساکن ڈہری مقیم پٹنہ عظیم آباد سے پڑھ کر ۱۲۰۰ھ میں سولہ برس کی عمر میں فاتحہ فراغ حاصل کی اور ۱۲۱۷ھ میں قرآن حفظ فرمالینے کے بعد ۱۲۲۱ھ میں حصن حصین حفظ فرمائی اور پھر حسب بشارت و ارشاد حضرت عماد الدین قلندرؒ جسے بذریعہ رویا مشرف ہوئے تھے۔ ۱۲۳۰ھ میں آپ نے صحیح بخاری و مسلم دونوں ہی کے حفظ سے فراغت پائی۔

چونکہ آپ کو علم حدیث کی طرف شغف خاص تھا باوجود یکہ ملا جلال ڈہری سے سند حدیث تھی ہی آپ نے بذریعہ خط سلطان المحدثین حضرت شاہ عبد العزیز علامہ دہلوی ؒ سے سند حدیث طلب کی۔ انہوں نے چند سوالات بخیال دریافت لیاقت علمی و حال استعداد لکھ کر بھیجے ۔ آپ نے ان کل سوالوں کے مدلل جوابات لکھ کر ارسال خدمت فرمائے۔ جنہیں دیکھ کر حضرت علامہ دہلوی پھڑک گئے اور فوراً سند احادیث لکھ کر بھیج دی۔ اس وقت حضرت دہلوی کے بعض خطوط حضرت غوث الدہر کے نام موجود ہیں جن میں حضرت علامہ نے آپ کو بڑے بڑے القاب سے یاد فرمایا۔ جیسے "صاحبزادہ عالی مرتبت، مجمع فضائل و مناقب، جلالتہ الاکابر و الامجاد، نتیجہ ارباب المحاسن و المحامد، ذوالمجد و المعالی، بہجۃ الایام و اللیالی" وغیرہ۔ علم قرات و تجوید میں بہت بڑے یگانہ روز گار تھے۔ آواز ایسی خوش آئند نہ تھی مگر آپ نےبڑی کوشش بلیغ سے آواز کو اس طرح ورست کیا کہ جب آپ بہ آواز بلند قرآن شریف تلاوت فرماتے تھے تو راہ کے راہی تک بے اختیار سننے کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ آپ کی بیعت ۱۲۰۰ھ میں ہوئی اور ۲۰ جمادی الاول ۱۲۱۱ھ کو بوقت مجلس عرس محبوب رب العالمین ؒ آپ کو آپ کے والد ماجد محی السالکین مولانا شاہ محمد نور الحق طپاں نے اجازت و خلافت و عصاء تسبیح و مصلیٰ دے کر بہ حضور جمیع المشائخ قرب و جوار سجادۂ محبوب رب العالمین پر بٹھا دیا۔ اس وقت آپ کی عمر چھبیس برس کئی ما ہ کی تھی۔ چونکہ ابتداء ہی سے آپ کے علم و فضل ظاہری و باطنی کا شہرہ بہت تھا۔ اس وجہ سے آپ کی سجادہ نشینی کے ساتھ ہی زیادہ تر لوگ آپ سے رجوع کر نے لگے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے رؤسا،امراء، علماء و صلحانے آپ کی طرف رجوع کیا۔ پٹنہ کے بہت بڑے رئیس راجہ جھاؤ لال جن کے نام سے آج تک پٹنہ میں محلہ جھاؤ گنج مشہور ہے آپ کے دست حق پرست پر مسلمان ہوئے اور غلام ثامن جوبہت بڑے منطقی اور علامہ روزگار تھے اور صوبہ بہار کے کسی عالم کو اپنی نگاہ میں نہیں لاتے تھے عقائد میں دہریت آگئی تھی۔ آپ سے دوچارہی باتوں میں ایسے گرویدہ ہوگئے کہ جب تک زندہ رہے خانقاہ عرفاں پناہ کا آستانہ نہ چھوڑا۔ اسی طرح سیکڑوں اولوالعزم بزرگوں نے آپ کو ایذا دینی شروع کیں ان مصائب اور تکالیف کو بیس برس تک آپ نے بڑے تحمل اور استقلال اور صبر کے ساتھ سہ لیا۔ جب دیکھا کہ اب تحمل سے باہر اذیتیں دی جا رہی ہیں تو آخر ترک وطن کا مستقل ارادہ کر لیا۔ اور ۱۲۳۰ھ میں ہجرت کر کے پھلواری سے پٹنہ عظیم آباد چلے آئے۔ حضرت شاہ نعمت اللہ قدس سرہ ٗکو جب آپ کی تشریف لے جانے کی خبر معلوم ہوئی تو وجہ دریافت کر نے کے بعد بہت روئے اور اپنے ان ناعاقبت اندیش لوگوں سے فرمایا کہ لو اب میں خلوت اور خانقاہ چھوڑ کر ترک وطن اختیار کرتا ہوں۔ چنانچہ سامان سفر مہیا کرنے لگے۔ لوگوں نے عرض کی کہ پہلے صاحبزادوں کو ارشاد ہو کہ یہ لوگ ان کو منا کر لے آئیں۔ بہت ممکن ہے کہ پھر چلے آئیں۔ چنانچہ حضرت شا ہ نعمت اللہ قدس سرہ نے حضرت شاہ ابوالحسن فرد وغیرہ اپنے کل صاحبزادوں کو حضرت ظہورالحق ؒ کی خدمت میں بھیجا اور اپنی طرف سے یہ پیغام بھیجا کہ آپ نہ آئیں گے تو اکیلے میں بھی اس بستی میں نہ رہوں گا۔ اگرچہ حضرت ظہورالحق بہت کبیدہ خاطر تھے مگرآپ کا دل بے کینہ حضرت شاہ نعمت اللہ قدس سرہ کے ان محبت بھرے الفاظ کو سن کر چین سے کیونکر رہ سکتا تھا۔ غرض آپ حضرت شاہ نعمت اللہ قدس سرہ کے پاس آکر ان کو گھر میں رہنے کی قسمیں دے کر اور اپنے متعلق معذرت کر کے چلے آئے۔ اس زمانے سے خانقاہ عمادیہ پٹنہ میں ہے اور خانقاہ مجیبیہ پھلواری ہی میں رہی اور اب بھی ہے۔ علم مناظرے کا آپ کو بہت شوق تھا۔ برابر اپنے مناظروں میں حق بجانب اور اپنے حریف پر غالب رہے۔ آپ کے اکثر مناظرے اب تک موجود ہیں۔ آپ کو تصنیف کابہت شوق تھا۔آپ کی تصانف کی تعداد سو تک پہنچ چکی ہے جن میں سے اکثر کتابیں تو خانقاہ کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ چند کتابوں کے نام درج کرتا ہوں جو پوری فہرست نہیں ہے۔ "تسویلات الفلاسہ"، رد فلاسفہ بہ دلائل عقلیہ بہ زبان عربی۔ "اعیان در منطق" یہ کتاب اپنے رنگ میں بلکل نئی ہے۔ سراپا جدت ہے محض کم سنی گیارہ برس کی عمر میں لکھی گئی بہ زبان عربی۔ "فیوض الہامیہ"در تصوف بہ زبان عربی، عجیب پاکیزہ کتاب ہےاور قابل دید ہے۔ "تنویرات" بہ زبان فارسی۔"النہی عن المنکر" بیان منہیات شرعی واوامر جمیع احکام شرعیہ در فقہ بہ زبان فارسی۔ "معاصم المآثم"بہ زبان فارسی در اقسام گناہان۔ نہایت مدلل اور قابل دید ہے۔ یہ کتاب ترجمہ کے ساتھ چھپ چکی ہے۔ رسالہ " کسب النبی" در بیان پیشہ ہائے انبیاء علیھم السلام ۔ "نصح نصیح" در فن حدیث وغیرہ۔

آپ خوش نویس بھی تھے اور شعر و سخن سے ذوق و شوق تھا۔ عربی و فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں بہت خوب فرماتے تھے۔ چند اشعار تبرکاً درج کئے جاتے ہیں: (۱)

کوئے تو ہر شب پناہ من است
آستان تو تکیہ گاہ من است
پائے من بود پر ز آبلہا
خار راہ طلب گواہ من است
من در آئینہ توعکس تو ام
لاجرم سوئے تو نگاہ من است
در رہ کج روان ظہور مرو
جادہ مستقیم راہ من است

ایک رسالہ عجالہ نافعہ جو سند حدیث میں ہے۔ حضرت سلطان المحدثین دہلوی کا بھیجا ہو اآپ کی خدمت میں پہنچا جس پر یہ عبارت آپ نے دستخظ مع ایک خواب تحریر فرمایا ہے و ہو ہذا۔

''تھا میں کرتا بذریعہ ایک اجازت اور سند پس خبر پائی میں نے کہ اس جناب نے شروع کیا واسطے تصنیف اس رسالہ بزرگ کے بس اس حالات میں کہ میں غمگین تھا۔ ہیچ طول مدت عدم وصولی رسالہ مذکور کے پس ناگاہ میں ایک رات مبارک میں دیکھا رسول اللہ ﷺ کو کہ لکھا طرف میرے ایک خط اوپر کاغذ طویل کے عمدہ خط میں ساتھ عبارت مسجع متینہ طویلہ کے ابتداء اس خط کی یہ ہے۔ اذافزت یعنی جس وقت گھبراوے تو بیحدحدیث کے مطلب میں میری حدیثوں یا کسے ذکر یا فکر یا سلسلہ میں سلاسل سے بیعت کے یا کہ کسی کلمہ میں کلمات خیر سے۔ پس میں اجازت دیتا ہوں تجھ کو واسطے پہنچانے اس کے ہر اس شخص کو جانتاہے مصلحت دین کے پہنچانے میں اس کی طرف لوگوں کے ساتھ رعایت رکھنے احیایط اور شروط کے بس جب صبح کو اٹھا میں تعریف کی اللہ جل شانہ کی اور شکر اس کا ادا کیا اس بات پر اور خبردی میں نے اس خواب کی اپنے دوستوں کو پھر پہنچا طرف میری یہ رسالہ گویا کہ وہ تھا واسطے غیر کے اور تھا میں خبر دیتا اس بات کی کہ وہ واسطے میرے ہے اور مانگا تھا میں نے اجازت اربعین اور اسانید صحاح ستہ کے اور سنن ابن ماجہ اور حصن حصین اور مشکوٰۃ اور قبول اس جناب کا وقت بھیجنے رسالہ کے طرف میری یہ تھا کہ اجازت میر ی ہے طرف تمہاری پس تعریف ہے واسطے اللہ کے اور ثناء۔''

اپنا ایک اور خواب حضرت شاہ ظہور الحق ؒ نے یہ عبارت عربی تحریر فرمایا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے۔: ''اپنے والد ماجد کے ساتھ میں بتاریخ ۱۴؍شوال ۱۲۴۷ھ کو خواب میں دیکھا کہ میں نے مدینہ منورہ کا سفر رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لئے کیا۔ اور میں نے زیارت کی اور ہم ایک مسجد حسنی کے صحن میں ہیں جوجنوباً شمالاً ہند وستان کی مسجدوں کی طرح ہے اس کے تین دروازے مشرق کی جانب ہیں اور قبے اس کے ہیں۔ اور گویا تھوڑی رات جاچکی تھی کہ رسول اللہ ﷺ اس مسجد میں تشریف لائے اور اس مسجد کے چراغ میں اشتعال دے رہے ہیں اور فرمارہے ہیں ظہور الحق اور نور الحق کو خدا بخش دے اور ان دنوں کے دشمنوں پر لعنت کرے۔ پھر جب صبح ہوئی تو ہم دنوں کو ہماری بستی پھلواری کی طرف رسول اللہﷺ نے رخصت کیا اور مجھے ایک جبہ اور جنت کی آس کا ایک عصاء جو حضرت آدم علیہ السلام کے عصاء کے مانند تھا دیا۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام سے لیا تھا۔ اور ان کے لئے ایک کھلی دلیل ہوا۔ا ور یہ جبہ اور عصاء گویا وہ تھا جسے ہم نے حضرت تاج العارفین سے وارثتاً پایا تھا اور مجھے عصاء اور جبہ رات کو دیا گیا تھا۔ جس رات میں حضرت محبوب رب العالمین کے سجادہ پر بیٹھا تھا۔ پس جب ہم لوگ اپنی بستی کی طرف آئے تو ایک گروہ ہم دونوں کے پاس خوش خبری دیتا ہو آیا جن میں سے ایک میرے بھائی مولوی شاہ وجیہہ اللہؒ تھے۔

آپ کے شاگرد بہت تھے۔ منجملہ ان کے چار اشخاص کا نام لکھتاہوں جنہوں نے اس خانقاہ میں رہ کر تعلیم حاصل کیا اور بڑے بڑے عہدوں پر مامور ہوئے۔ ایک مولوی خیرات علی مرحوم دپٹی کلکٹر ڈمری۔ دوئم ڈپٹی واجد حسین سکریچہ ۔ سوئم مولوی فضل امام بہار۔ مولوی عالم علی سرشتہ دار کمشنری مقام بھا گل پور۔ ان لوگوں کی دولت اب تک قائم ہے اور خاندان ان لوگوں کا مشہور ہے۔

آپ کے پانچ صاحبزادے تھے اول مولانا حافظ شاہ محمد نصیر الحق، دوئم مولوی حافظ قاری شاہ احمد ظہیر الحقؒ ، سوئم مولانا شاہ علی امیر الحق، چہارم مولانا شاہ سفیر الحق، پنجم مولوی حافظ فقیر الحق اور مولوی محمد صفی ابن مولوی شاہ وجیہہ اللہ کی بھی مثل فرزند تربیت کی اور بڑے عالم ہوئے۔ چناچنہ مولانا نے ایک نظم میں اپنے کل لڑکوں کی تاریخ ولادت لکھی ہے۔ اس میں ان کو بھی فرزندوں میں شامل کیا ہے۔

آپ کی وفات ۱۶؍ ذی قعدہ ۱۲۳۴ھ بروز سہ شنبہ ڈیڑھ پہر دن چڑھے ہوئی۔ اور دو گھڑی دن رہے بمقام پھلواری دفن ہو ئے۔ مزار مبارک حضرت شاہ نور الحق ؒ کے مزار کے پہلو میں بہ جانب پورب واقع ہے۔

حضرت غوث الدہر کو چونکہ اتباع شریعت کا ایک خاص خیال تھا۔ اس وجہ سے آپ نے عہد سجادہ نشینی میں خانقاہ عمادیہ سے مجلس سماع کا دستور اٹھا دیا۔ جب کسی بزرگ کی تاریخ وفات آجاتی تو سرف طعام و فاتحہ خوانی و تلاوت قرآن و ختم وغیرہ کے ذریعے ایصال ثواب فرما دیا کرتے تھے۔ اس سے قبل بھی جو مجلس سماع ہوا کرتی تھی تو مزامیر کے بغیر صرف قوال کا گانا ہوا کرتا تھا۔ اب جو صرف دف پر گانا ہو تا ہے یہ آپ کے بعد کا معمول ہے۔ آپ کی زوجہ محترمہ نے وفات کے بعد تیسری شب کہ شب جمعہ خواب میں دیکھا کہ حضرت ایک تہبند پہنے ہوئے ہیں اور نیم تنہ بدن میں اور ٹوپی سر پر رکھے اور رومال ہاتھ میں اور نعلیں پیر میں پہنے ہوئے تشریف لائے اور تمام مکان کو گرد وغبار سے صاف کرارہے ہیں۔ بلکہ بعض چیزوں کو خود اپنے رومال سے صاف کر رہے ہیں۔ حضور کی زوجہ نے فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے کیوں تکلیف فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ استعجاب اس سبب سے ہے کہ محمد نصیر الحق فرزند دلبند میرا آج سجادہ نشین کیا جائے گا اس لئے اپنے ہاتھ سے دفع غلاظت کرتا ہوں۔ مولانا محمد صفیؒ نے ایک رات کو دیکھا کہ مولانا محمد نصیر الحق ذکر اثبات و نفی جہریہ میں مشغول ہیں اور حضرت شاہ ظہورالحق ؒ وجد و خوشی میں ہیں اور حاجی عبد الواحد یکے از مریدان سے نقل ہے کہ حضرت مولانا نے وفات فرمائی تو ایک رات مقام لکھنو خواب میں دیکھا کہ پیر دستگیر فرماتے ہیں کہ اے عبد الواحد جاؤ اور پائے بوسی محمد نصیر الحق کی کرو۔ جب بیدار ہوئے تو شرف زیارت حاصل کیا۔ نقل ہے کہ چند اشخاص ارادہ بیعت کا حضرت مولانا سے رکھتے تھے جب حضرت کا وصال ہو گیا تو ان لوگوں کو کمال اضطراب و پریشانی ہوئی۔ عین پریشانی کی حالت میں لوگوں نے دیکھا کہ حضرت مولانا فرماتے ہیں کیوں اس قدر بد حال و پریشان ہو۔ میں نے نقل مکان کیا ہے اور ثانی خود محمد نصیر الحق ؒ کو بجائے اپنے سجادہ نشین اپنا کیا ہے۔ بیعت ان کے ہاتھ پر کرنا عین ہمارے ہاتھ پر بیعت کرنا ہے۔ جاؤان کے ہاتھ پر بیعت کرتے جاؤ۔ چنانچہ وہ لوگ آتے گئے بیعت ارادت مندانہ حاصل کرتے گئے۔

(انوار الاولیا مؤلفہ مولوی حسیب اللہ مختار، مرتب سید نعمت اللہ، مطبوعہ بساط ادب کراچی)