۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

صدرالافاضل کی نسبت طریقت

صدرالافاضل کی نسبت طریقت

      ہر صاحب علم و فضل اپنے آپ کو کسی صوفی اور صاحب طریقت سے منسلک ہونے کو باعث افتخار سمجھتا ہے۔ خیرالقرون کے بعد  تو ارباب علم فن اپنے تعارف میں اپنی طریقتی نسبت ضرور پیش کیا کرتے پھرعہد وسطیٰ میں مصنفین اپنے نام کے ساتھ یہ ضرور لکھتے کہ وہ مشرباً کیا ہیں؟  مثلاً نام کے بعد مذہبا، مسلکااور مشربا ضرور لکھا کرتے۔ بعد میں لوگوں نے اس کو ترک کردیا۔ اور صوفیائے کرام سے جڑے رہنے کو یاتو کم تری یاکسر شان سمجھنے لگے جبکہ مولانا روم جیسی شخصیت یہ کہہ دیتی ہے کہ:

مولوی ہرگز شدمولائے روم
تا غلام  شمس تبریزی نہ شد

     لیکن اب پھر اس کی طرف ارباب دانش متوجہ ہوئے اور ان کی سمجھ میں یہ آیاکہ بغیر نسبت صوفیاء کے بات نہیں بنتی ہے

 ع

بنتی نہیں ہی ساغر و مینا کہے بغیر

     لیکن بعض محققین تصوف اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کس کو کس طرح اپنے پسندیدہ سلسلہ سے منسلک کردیا جائے۔ ہم جس سلسلہ میں داخل ہوں تمام قدماء کو بھی اسی میں شامل کردیا جائے۔  اگرچہ جس کو شامل کیا جارہا ہے وہ خود اس نسبت کی بابت خاموش ہو۔

اس سلسلہ میں ایک غیر جانبدارانہ بات یہ ہے کہ صاحب نسبت اگر اپنی دیگر نسبتوں کو چھوڑ کر جسے اپنے نام کا جز بنایا ہو اسی نسبت سے بعد والے بھی انہیں پکاریں۔

 کسی شیخ سے نسبتیں پانچ طرح سے حاصل ہوتی ہیں،

۱۔ نسبت نسب

۲۔ نسبت بیعت اول

۳۔ نسبت بیعت ارشاد

۴۔ نسبت خلافت و مجاز

۵۔ نسبت تعلیمی و تربیتی

     یہاں اول اور آخرکو چھور کر گفتگو ہورہی ہے۔ اگر صاحب نسبت اگر اپنے نام کے ساتھ نسبت بیعت اول کی لگایا کرتا ہے اور دوسری نسبت کو وہ مانتا تو ہے لیکن اسنے اپنے نام کا جز نہیں بنایا اور نہ اس کے خلفاء وجانشیں اور معتقدین و متوسلین نے دیاتو مناسب یہی ہے کہ اسے اسی نسبت سے جاناجائے۔

      اگر کسی نے نسبت ثالث یا رابع کو بھی اپنا اور ثانی کو بھی ترک نہیں کیا تو اسی نسبت سے اسے جانا جائے اور اگر اول نسبتوں کو ترک کردیا تو لوگوں کو چاہیے کہ اسے اسی نسبت سے یاد کریں۔

     اور اس میں قوی طرین نسبت نسبی نسبت کے بعد نسبت ثانیہ یعنی بیعت والی ہی ہوتی ہے۔ شیخ  ارشاد یا شیخ خلافت یاشیخ تربیت سب اس کے بعد آتی ہے۔ ہاں کبھی اگر نسبت ثالثہ، رابعہ  یا خامسہ زیادہ قوی مل جائے تو صاحب نسبت کو اختیار ہے وہ جس نسبت کو چاہے اپنے نام کا جز بنالیتا ہے اور چاہے تو نہ بھی بنائے۔ اس کی مثال ہمارے اکابر کے یہاں اس طرح پر ملتی ہے کہ

     حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی سلسلہ سہروردی نسبت رکھتے ہوئے بھی غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کے تربیت یافتہ اور خلیفہ و مجاز تھے لیکن آپ نے اپنے نام کے ساتھ پہلی ہی نسبت کو رائج  رکھا اور آج تک یہی نسبت آپ کے نام کا جز بنی ہے کوئی شہاب الدین قادری نہیں کہتا جبکہ ہندستان میں سلسلہئ قادریہ اس نسبت سے خوب پھیلی ہوئی ہے۔

    دوسری مثال اس طرح کہ حضرت نجم الدین غوث الدہر شعلہ قلندر، آپ کی نسبت بیعت چشتی ہے مگر تربیت، مجاز و خلافت سلسلہ قلندریہ ہے اسی نسبت سے قلندر آپ کے نام کا جز بنا۔

    یہی حال کچھ حضرت مولانانعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ جنہیں صدرالافاضل کے نام سے جاناجاتا ہے۔ کوئی انہیں قادری کوئی چشتی، اور کوئی اشرفی وغیرہ وغیرہ لکھتا ہے۔

    اب اسی پر قیاس کرتے ہوئے یہ دیکھیں کہ خود صدرالافاضل اپنے دستخط، تحریر، لیٹرپیڈ یا خط و کتابت میں کون سی نسبت کو لکھا کرتے اور اپنانام کس نسبت سے بتایا کرتے وہی نسبت انکے نام کا جز رہے گا۔ 

    ہمارے اکابرین میں سے بہت سے ایسے شیوخ گزرے ہیں جن کو کئی نسبتیں خلافت و مجاز اور تعلیم و تربیت کی حاصل ہوتی تھی اور آج تک انکے نام میں کوئی نسبت بھی نہیں لگی ہوئی ہے۔جن میں قابل ذکر حضرت قطب الدین بینا دل جونپوری علیہ الرحمۃجو جس سلسلہ میں لکھتا ہے وہی نسبت جوڑ دیتا ہے۔

    لہٰذا!   حضور صدرالافاضل کی نسبت بیعت کو ہی زیادہ ترجیح دی جائے گی کہ انہوں نے خود اس کو پسند فرمایا ہے اور یہ ان کی اول نسبت بیعت،  نسبت خلافت و مجاز اول اور نسبت تربیتِ تصوف بھی ہے۔اس لیے یہ نسبت اقویٰ ہے بہ نسبت دوسری نسبتوں کے۔ ہمیں یا کسی کو یہ اختیار نہیں اور ان کے وارثین و جانشیں کو بھی یہ اختیارنہیں کہ ان کی پسند کی ہوئی نسبت کو ہم ان سے جدا کرکے کوئی اور نسبت شامل کردیں جو صرف نسبت مجاز ہو۔

راقم الحروف:

سید شاہ مصباح الحق عمادی
سجادہ نشیں خانقاہ عمادیہ
پٹنہ سٹی