۰۰۹۱۷۹۰۳۹۴۳۸۷۸

page-title-ayat.png

محبوب رب العالمین حضرت خواجہ عمادالدین قلندر بادشاہ قدس سرہٗ


''عماد الدین" نام، " محبوب رب العالمین" لقب، "ابوسجاد" کنیت ، "میاں صاحب" عرفیت اور پیر و مرشد کی طرف سے " بادشاہ" کا خطاب عطا ہوا۔۱۰۶۵ھ (۵۳۔۱۶۵۴ء) قصبہ پھلواری شریف میں پیدا ہوئے مادۂ تاریخ ''خواجہ قطب المحققین" ہے۔ آپ حضرت امیر عطاء اللہ پھلواروی (متوفی ۹۶۴ھ) کی پانچویں پشت میں ہیں۔ سلسلہ نسب حضرت زینب بنت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہما بنت محمد رسول اللہ ﷺ سے ملتا ہے ۔ (حضرت زینب کی شادی حضرت عبد اللہ الجوادابن جعفر طیار ابن ابو طالب سے ہوئی تھی)۔

ابتدائی تعلیم سے متوسطات تک اپنے والد حضرت برہان الدین قادری قدس سرہٗ عرف " لعل میاں" سے حاصل کی ۔ فراغت کے لیے دہلی گئے، وہاں کچھ عرصہ گزار کر لاہور تشریف لے گئے اور وہیں سے فارغ التحصیل ہوئے اور اسی مدرسے میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے ۔ اسی اثنا انہیں تعلیم باطنی و روحانی کے حصول کا شوق ہوا نسبت طریقت کی خاندانی چنگاری شعلہ بنی اور مدرسہ چھوڑ کر سید المستغرقین حضرت سیدفاضل قلندر سادھوری کی خدمت میں پہنچے اور کئی سالوں تک مرشد کی خدمت میں رہے۔ ریاضت ومجاہدات میں کمال حاصل کیا، پیر کی نگاہ کرم نے راہ سلوک کی منزلیں طے کرنے میں مدد کی۔ اور جب سلسلہ قلندریہ کی تعلیمات مکمل ہو گئیں تو ۱۱۰۴ھ میں پیر و مرشد نے خلافت نامہ اور مثال پیراں بدست خود تحریر فرما کر عطا فرمایا اور اپنی تسبیح، مصلّا، عمامہ اور خرقہ عطا کرکےفرمایا: 'اے عمادالدین، "بادشاہ" اللہ نے اپنے فضل و کرم سے تمہیں درجہ شیخی پر پہنچا دیا۔'

۱۱۰۴ھ میں ہی واپس اپنے وطن پھلواری شریف لوٹے آپکے والد نے قصبہ سے باہر آکر استقبال کیا اور "یوسفِ من، یوسفِ من" کہہ کر سینے سے لگا یا ۔ پھر والد اپنی خانقاہ ، خانقاہ برہانیہ جنیدیہ قادریہ میں لے کر پہنچے ۔ اپنے سلسلے کی اجازت و خلافت عطا فرمائ اور اپنی خانقاہ آپ کے سپرد کرکےخود گوشہ نشینی اختیار کرلی۔

پھلواری شریف ہی نہیں بلکہ اطراف و جوانب میں بھی آپکی بزرگی کا چرچا ہونے لگا ، طالبان حق اور تشنگانِ طریقت آنے لگے۔ آپ کا خاندان پہلے ہی سے راہِ طریقت کا رہنما تھا ۔ اب اور زیادہ شہرت ہو گئی ۔آپ کے خاص خلفاء میں حضرت تاج العارفین پیر مجیب اللہ پھلواروی اور حضرت شاہ مقیم پھلواروی ہیں ۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آپ پھلواری شریف کے پیر کُل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ آپ خلفا میں صرف ایک نام دریافت ہوسکا یعنی شاہ برہان الدین بلخی فردوسی سجادہ نشیں جانقاہ بلخیہ فردوسیہ، فتوحہ پٹنہ کا ہے۔ حضرت میاں صاحب کی ذات گرامی آٹھ سلاسل کی جامع تھی۔(۱) سلسلۂ قلندریہ (صرف دس واسطوں سے حضور اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے) (۲) سلسلۂ قادریہ (۳) سلسلہ فردوسیہ (۴) سلسلہ سہروردیہ (۵) سلسلۂ چشتیہ (۶) سلسلۂ طیفوریہ(۷) سلسلہ مداریہ (۸) سلسلہ قادریہ جنیدیہ (والد گرامی سے حاصل ہوا) بیعت سلسلہ قلندریہ میں تھی اس لیے قلندریت کا غلبہ تھا یہی وجہ ہے کہ ''قلندر '' آپ کے نام کا جزبن گیا۔

۲۰؍ جمادی الاول ۱۱۲۴ھ بروز یکشنبہ ظہر کے وقت آپ کا وصال پھلواری شریف میں ہوا مادۂ تاریخ "پاک ذات" ہے۔ لعل میاں کی درگاہ پھلواری میں اپنے والد کے پائیتی مدفون ہوئے۔ آپ کے دو صاحبزادے شمس العارفین شاہ غلام نقشبندؒ سجاد اور شاہ انعام الدین (کم عمری میں فوت ہوئے ) اور ایک صاحبزادی بی بی حفصہ تھیں۔

اردو زبان میں ایک رسالہ "سیدھا راستہ" آپ کی جانب منسوب ہے جس کا اصل نسخہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ آپ نے صرف سترہ سال کی عمر میں اسے تحریر فرمایا تھا۔ شاعری میں آپ عمادؔ تخلص فرماتے کلام کا کثیر حصہ ایک حادثہ میں ضائع ہو گیا ۔ بہت مختصر کلام محفوظ رہ سکا ، شاعری کے علاوہ رشد و ہدایت اورتبلیغ شریعت و طریقت کے لیے اردو زبان کو ہی استعمال فرما تے تھے ۔ آپ کا تذکرہ ادبی حیثت سے اردو زبان و ادب کے تقریباً اکیس تحقیقی مقالوں میں نظر سے گزرا ہے۔ ڈاکٹر اختر اورینوی اپنے تحقیقی مقالہ "بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء " میں تفصیل کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

'' جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پھلواری شریف کے صوفیا ئے کرام نے رشد و ہدایت اور تبلیغ و ترویج اسلام کے لئے حضرت عماد کے وقت سے مسلسل اردو زبان کو استعما ل کیا ہے۔''

نمونۂ کلام:

بیچ نظر کے ایدھر اودھر ہر دم آوے جاوے ہے
بل بے ظالم تس پر بھی ٹک دیکھے کو ترساوے ہے
جب ستی چھوڑس کھانا پینا تیرا دوانہ الفت میں
خون جگر کا پیوے ہے غم غصہ کو کھاوے ہے
آوے اپنے ہاتھ وہ مورکھ نہیں عمادؔ اب اس کی آس
اس کے کارن کون جتن ہم کیّا جو نہیں آوے ہے


رباعی

یارب نگہ عنایت ایدھر کردو
کانٹا ہے عمادؔ تم گل تر کردو
ہے رنگ گنہ سیتی رخ اس کا کالا
تم غازۂ عفو سیں منور کردو

آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے شمس العارفین شاہ غلام نقشبند سجادؔ علیہ الرحمتہ آپ کے سجادہ نشیں ہوئے ، صاحب کمال بزرگ اورمتقی و پرہیزگا ر ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے اچھے شاعر تھے ۔ ابھی بھی آپ کی خانقاہ ''خانقاہ عمادیہ" روحانی حیثیت کے علاوہ علمی اور ادبی حیثیت سے بھی جانی اور پہچانی جاتی ہے۔

"جد امجد مجیب سے اب تک ،ہوں سگ ترا عمادالدین" (فریدؔ)